بیادِ ساجد بلوچ – بالاچ بلوچ

393

بیادِ ساجد بلوچ

تحریر: بالاچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ساجد آپ ہم سے ہر گز جُدا نہیں، کاش آپ سے ایک بار ملاقات ہوئی ہوتی، مگر شاید ہمارے نصیب میں ملنا نہیں تھا۔ آپ کا یوں اغواہ نما غائب ہوجانا اور پھر آپ کی پُھول جیسی لاش کا ندی کنارے سے ملنا، یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے کہ جس سے بلوچ جیسی مظلوم قوم کی آواز کو دبانا مقصود تھا، آپ کا جُرم صرف اتنا ہی تھا کہ آپ سچ کو سچ لکھتے اور بلوچ قوم کیخلاف جاری ظلم و جبر کے سامنے اپنے قلم کی طاقت سے قوم کی آواز بنے۔

ساجد آپ کے ہاتھوں میں بندوق بھی نہیں تھی نہ ہی آپ نے پہاڑوں کا رُخ کیا تھا مگر پھر بھی آپ کی جدوجہد نے دشمن ریاست کی نیندیں حرام کر رکھی تھی، ایک غیر فطری ریاست اور ایک غیر مہذب دُشمن سے اور توقع بھی کیا رکھی جاسکتی ہے۔

ان انسانیت سے عاری درندوں نے یورپ کی پُر امن فضاؤں میں بھی اپنی وہی وحشیانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے، بلوچ قوم کے ایک بہت ہی اہم وسیلہ کو لاپتہ کرکے بلوچ قوم کو پریشانی میں مبتلا کردیا اور آپ پھر ہمارے زخموں پر مزید نمک پاشی کرتے ہوئے، ساجد جان آپ کو ہم سے جسمانی طور پہ الگ کردیا گیا، لیکن آپ کی جدوجہد، آپ کی طرز حیات اور آپ کی ماہرانہ صحافتی و ادبی فکر تمام بلوچوں کے لئے مشعلِ راہ ہے اور ہر بلوچ فرزند جو علم و آگاہی کی روشنی کی جانب سفر کریگا یقیناً وہ اپنے آپ میں ساجد کے ہونے اور اس کے عمل کے تسلسل کے برقرار رہنے کی یقین دلاتا رہیگا، دشمن اپنی ان غیر انسانی اعمال سے صاف عیاں کرچکا ہے کہ وہ اپنی شکست کو محسوس کر رہا ہے۔

ساجد آپ کی گمشدگی سے لیکر تاحال آپ کے نام سے منسوب تحریریں، پیغامات اور شاعری اس امر کی دلیل ہیں کہ نہ صرف بلوچ قوم بلکہ دیگر باشعور، حق گو، قلم دوست مختلف ممالک اور الگ الگ زبانیں بولنے والے بھی بہ فکر آپ کی حق گوئی کی داد دیتے نظر آرہے ہیں جو کہ خود دشمن کے منہ پے طمانچے کے مترادف ہیں، اور اُس کی شکست کی عکاسی کر رہا ہے۔

رہی بات کون کب تک باقی رہے گا، اس کا فیصلہ بھی ایک دن ہوکر ہی رہے گا (ظُلم جب بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے) اور یہ شمع جلتی رہے گی، جو علم، شعور اور آگاہی سے لیس ہے اور یقیناً آپ کا کارواں رواں دواں رہے گا، آپ کے رفقاء ضرور آپ کے مقصد کی پیروی کرتے ہوئے اپنے قلم کو بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنی قوم پہ ہونے والے مظالم کیخلاف آواز بنے گیں، ہر ایک پلیٹ فارم پہ اپنے دشمن کا ناپاک چہرہ اور بھیانک پردہ پاش کرینگے۔

دشمن کی بلوچ جہد سے خوفزدگی کے سبب شروع کی جانے والے ان کی انسانیت سے عاری اعمال قید و بند، سے نہ ہی جرأت مند اور غیور بلوچ نوجوانوں کے حوصلے پَست ہوئے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں یہ مظالم بلوچوں کی جائز اور بنیادی حقوق آزادی کی جدوجہد میں کوئی کمی لانے کا مؤجب بنے گی البتہ مظالم کی شدت سے پیدا والی آواز مزید توانا اور شدید ہوتی نظر آرہی ہے۔

آج ہر ایک بلوچ فرزند اپنا قومی فریضہ ایمانداری سے سرانجام دیتا دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ سب ان نوجوانوں کی محنت کا ثمر ہے، جو بلوچ قوم کی آواز کو دنیا کے ہر کونے کونے تک پہنچانے کی شب و روز جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔