شہید زاہد سے جڑی چند یادیں – عبدالواجد بلوچ

686

شہید زاہد سے جڑی چند یادیں

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہزار باتیں ہیں دل میں ابھی سنانے کو
مگر زباں نہیں ملتی ہمیں بتانے کو
ہزار منہ ہزار باتیں ۔۔۔۔ مگر ہم وہی کہتے ہیں جن سے ہماری یادیں وابستہ ہوں، ہاں وہ پاگل تھا جنون اس کے رگ رگ میں سما چکی تھی۔ جب جذبات میں آتا، نہ پیچھے دیکھتا نا آگے بس چلتا جاتا، چلتا جاتا جانبِ ہدف، ہدف ملا تو خوش، نا ملا تو پھر کرنے کا جنون ہمیشہ اس کے سر پر سوار رہتا۔ جی ہاں! وہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ زاہد عرف لیفٹننٹ مراد تھا۔ ہم اُسے مُرادک کہتے تھے، پتہ نہیں غصے سے یا پیار سے لیکن اس کا دارومدار ہر اس عمل کے پیچھے وابستہ تھا جو کبھی منفی تھیں اور کبھی مثبت.

2007 کی بات ہے ہم کاروانِ آزادی میں ساتھ تھے، یوں کہوں تو غلط نہیں ہونگا کہ جب عملی جدوجہد میں اپنا راستہ مَیں نے چُنا تو میرا پہلا ساتھی مُرادک تھا وہی پاگل وہی جنونی کسی چیز کا آسرا نہ کرنے والا۔ جب جب ہم ساتھ تھے وہ دن تھے، ہفتے تھے، مہینے تھے یا سال کہہ لیں لیکن میں نے انہیں وطن کے لئے جنونی پایا. وہ میرا دوست تھا، اچھا دوست، لوگ کچھ کہیں یا نا کہیں میں یہی کہونگا کہ لیفٹیننٹ مراد سے میرے اختلافات تھے اور وہ سیاسی تھے ذاتی نہیں………. جب مجھے ان کی جانب کوئی چیز اچھی نہیں لگتی جب وہ دسترس میں تھا تو میں کہتا انہیں، وہ ناراض ہوتا بپھر جاتا، پھر واپس آجاتا تھا کیونکہ ہماری دوستی کی نوعیت تھی ہی ایسی.

آٹھ اگست 2007 کو جب شہید ڈاکٹر خالد اور دلجان سوراپ میں شہید کئے گئے تو اس کے بعد 29 اگست 2007 کو بلوچستان کے لئے آواز بلند کرنے والی ریڈیو چینل “ریڈیو گوانک” کے لئے ہم دونوں نے اس جگہ جانے کی کوشش کی جہاں شہید ڈاکٹر خالد اور شہید دلجان کے خون سے ایک جہان سبزہ زار بن گیا۔ اس جگہ کی تصویریں لیئے لیکن بدقسمتی سے ہم وہاں پہنچنے سے پہلے پیرا ملٹری فورس ایف سی کے ہتھے چڑھ گئے، سوراپ سے جب ہمیں اریسٹ کیا گیا تو اسی شام ہمیں مند ایف سی کیمپ منتقل کیا گیا۔ وہاں ایک رات رہنے کے بعد اگلی صبح ہم دونوں کو تربت ایف سی ہیڈ کوارٹر منتقل کیا گیا۔ ہم ساتھ تھے، ساتھ ہم پر تشدد کیا گیا، ہم ساتھ کھانا کھاتے تھے، ساتھ تکلیفیں سہتے تھے، ساتھ اس فرش پر سوتے تھے جس پر کوئی چٹائی یا رضائی نہیں ہوتا تھا۔ ہم دونوں کی کمٹمنٹ تھی، جذبہ تھا اعتماد تھا، بھروسہ تھا، اس سے بڑھکر دوستی تھی، جو اپنے عروج پر تھا۔

17 دن ہمیں مسلسل ایف سی کیمپ میں رکھا گیا، ریاستی فورسز نے ہمیشہ یہی کوشش کی تھی کہ ہمیں کسی بھی طرح شہدائے سوراپ سے منسلک کرے لیکن انہیں کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ دوران اذیت میرے دوست زاہد کے کہنے پر ہم دو دن بھوک ہڑتال پر بھی رہے تاکہ وہ لوگ ہمیں یہ بتائیں کہ دو ہفتے گذرنے کے بعد بھی ہماری گرفتاری کا کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتا رہے تھے۔ جب 18 دن ہمیں پورے ہو گئے تو ایک شام وہ پشتون صوبیدار بھی آیا، جو ہمارے اوپر تعینات تھا، ہم سے کہا کہ تم لوگوں کو آج چھوڑا جائے گا۔ خوشی کی انتہاء تھی جس زندان میں ہم 18 دن ساتھ ہیں آج ہماری آزادی کا دن ہے، خوش تھے، ہنس رہے تھے، درد و اندوہ بھلائے جارہے تھے، نئے منصوبے ذہنوں پر گردش کررہے تھے، شام آئی دھوپ ڈھلنے لگا تاریکی نے اپنی چادر روشنی پر جب ڈھانپ لی تو ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئیں، ہاتھ پیچھے باندھ کر ہم دونوں یاروں کو ایک جیپ میں بٹھا کر ایف سی کیمپ سے نکال لیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم دل ہی دل میں خوش تھے کہ آج پھر دوبارہ ہم مند کے عظیم زمین پر قدم رکھیں گے، پھر ہماری محفلیں ہونگی، پکنک ہونگے، شکار پر ساتھ جائیں گے، خوشیاں پھر لوٹ آئیں گی . لیکن کیا پتا تھا کہ چند قدم کے فاصلے پر ہم دونوں کا انتظار بدنام زمانہ پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی کی خفیہ ازیت گاہیں کررہی تھیں۔

وہاں منتقل ہونے کے بعد منظر ہی کچھ مختلف تھا، ہمیں جدا جدا کیا گیا، جدا جدا تحقیقات، جدا جدا انوسٹی گیشن، جدا جدا ٹارچر، یہ سب دو دن چلتے گئے، پر ہمارا کمٹمنٹ مضبوط تھا، باتیں ایک تھیں، ارادے قوی …کیوں نا ہوں ہمارے ارادے قوی جب ہمیں تربیت ہی ایسے استادوں سے ملی.

جب دو دن بعد ہمیں بازیابی نصیب ہوئی تو یہ رمضان ہی کے دن تھے، لوگ روزے میں تھے، ہم اذیت گاہوں سے آزاد ہوکر مند کی آزاد فضا میں دوبارہ لوٹ گئے. اس کے بعد جو سلسلہ تھا، ہمارے راستوں کا جانبِ منزل سفر کا چند وجوہات کی بِنا میں انہیں پورا نا کرپایا۔ وجوہات کیا تھیں؟ وہ سلسلہ کیوں رک سا گیا وہ تاریخ کے پنّوں پر ابھی بھی درج ہیں، ان سے منہ گردانی نہیں کیا جاسکتا. میں نے دوبارہ اپنا پڑھائی کا سلسلہ شروع کیا۔ بی ایس او والی پہلی سیاست کے پیچ و تاب شروع ہوتے گئے۔ کبھی لسبیلہ کبھی اوتھل تو کبھی شال کی سرد ہواؤں میں مَیں آزادی کے خواب دیکھتا رہا اور دوسری جانب لیفٹیننٹ مراد آزادی کے خواب اپنے دل میں سجائے سیاجی کے سنگلاخ پہاڑوں پر کمندیں لگا رہا تھا. لوگ کہتے گئے مَیں سنتا رہا، ہزار منہ ہزار باتیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کبھی ہم مند میں ملتے رہتے تو کبھی کراچی کے بہترین موسم میں ڈھابوں پر چائے ساتھ پیتے تھے، مَیں پھر بھی اس سے لڑتا تھا، ان کے طریقہِ کار پر نکتہ چینی کرتا تھا، کبھی ہم ناراض تو پھر ایک ساتھ ۔۔۔ کبھی میں غصہ تو کبھی وہ. حالانکہ اس دوران ان سے زیادہ مجھے ان کے چھوٹے بھائی صغیر عرف بلال سے زیادہ امیدیں تھی کیونکہ وہ تھوڑا سنجیدہ تھا،، زاہد تو پاگل ہی ٹہرا نا۔

ہزار منہ ہزار باتیں، اسی رویے نے آج ہمارے اندر دوریاں پیدا کی ہیں، بلوچ تحریک آزادی ہزارہا پیچیدگیوں کا شکار ہے، ہزارہا مسائل جنم لے چکی ہیں. پر ہمارے رویے کبھی مثبت نہیں رہتے۔ کتنے دوست بچھڑ گئے ہم سے، کتنے اذیت گاہوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں لیکن ہمارے ہزار منہ ہزار باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ جی ہاں میں نے کہا کہ آخر وقت میں مجھے اپنے پاگل دوست سے زیادہ ان کے چھوٹے بھائی صغیر عرف بلال سے زیادہ توقعات تھیں کہ وہ سنجیدہ ہیں لیکن کہتے ہیں کہ انسان تاریخ میں امر رہے تو اعلٰیٰ مرتبہ ہی ان کا پہچان بنتا ہے۔ وہی صغیر عرف بلال آج سرینڈر ہوکر تاریخ میں داغ دار ہوا لیکن میرا پاگل دوست جو شروع دن سے جنونی تھا اور اسی جنون میں وہ لیفٹیننٹ کے عہدے تک پہنچا اور انہیں شہادت نصیب ہوئی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔