فیمینزم اور ہم، ایک جائزه – حیراف بلوچ

1087

فیمینزم اور ہم، ایک جائزه

تحریر: حیراف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فیمینزم کیا ہے؟ فیمیزم کی تعریف ہم اسکے اغراض وُ مقاصد ہی سے کرتے ہیں کہ جو عورتوں کی سیاسی، سماجی، معاشی اور ذاتی حوالے سے بهی مردوں کے برابر ہونے کیلئے جدوُجہد کا نام ہے. بیسوی صدی سے قبل عورت کو جہاں جوتے کی نوک پر رکها جاتا، وہیں اسے ووٹ دینے کا بنیادی حق تک حاصل نہ تهی. 1910 میں پہلی دفعہ (انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمنز کانفرنس) نے نیویارک میں آٹھ مارچ کو خواتین کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کردیا، جسے کمیونسٹ اور سوشلسٹ مرد وُ زن دونوں ہر سال مناتے رہے. یہ دن ایک موومنٹ کی طرح سامنے آئی اور دیکهتے ہی دیکهتے عورتوں کے حقوق کا ضامن بنتی چلی گئی. جب روس میں بالشیویک انقلاب برپا ہوا اور سوشلسٹ برسرِ اقتدار ہوئے تو اِسی دن ہی کی بدولت کامریڈ لینن کی سربراہی میں روس کے آئین نے عورتوں کو ووٹ دینے اور لینے کا حق فراہم کیا یہ غالباً 1918 کی بات ہے اور اس کے قریباً دس سال بعد یعنی 1928 میں برطانیہ نے بهی یہی اصلاحات تھوڑے الگ طریقے سے نافذ کیئے جس کے مطابق اگر عورت کی عمر 30 سال سے اوپر ہو اور اُسکی ملکیت میں کچھ ہو تو وه ووٹ ڈال سکتی ہیں. اور اسی دن کو 1975 میں جاکر اقوام متحده نے عورتوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کردیا.

اس دوران یا اس سے پہلے بهی عورت کی حالت زار کوئی مردوں کے خاص برابر نہ تهی تو اس جدوُجہد کو انیسوی صدی یا اس پہلے کا شاخسانہ بهی کہا جاسکتا ہے. وه یہی دور ہی تها کہ جب عورت نے پدرشاہی نظام کے خلاف بغاوت کی اور طرح طرح کے فیمنزم نظریات اُبهریں.

ایک مقولہ جسے شاہد ہمارے معاشرے میں اب بہت پذیرائی ملی ہے کہ عورتوں کی بهی تعلیم وُ تربیت ہونی چاہیئے کیونکہ قوموں کی تربیت میں عورتوں کا بهی بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور دورِ حاضر میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو اس بات پر متفق نہ ہو. اس مُدعے پر پہلی دفعہ 1792 میں میری والسٹن کرافٹ (Mary Wolstencraft) آپنی کتاب Vendication The Rights Of Women میں تفیصلاً لکھ چکی ہے. وه یہ بهی لکهتی ہے کہ عورتوں کو محض سجاوٹ یا ضرورت کی چیز نہ سمجهی جائے، جسے شادی بیاه میں استعمال کی جاتی ہو اور یہ کہ بحثیتِ انسان جو حقوق مردوں کو حاصل ہیں، وه عورتوں کو بهی حاصل ہونی چاہئیں اور یہ عورتوں کو مردوں کی ملکیت نہیں بلکہ ساتهی سمجها جائے. میری والسٹن کرافٹ کے بعد فیمینزم کے سوال پہ بہت سے دوسرے لوگوں نے لکها جن میں خواتین وُ مرد دونوں شامل ہیں.

انیسوی صدی میں چارلس فیئری(Charless Ferry) اور فریڈریک اینگلز نے بهی اس سوال پہ لکها. چارلس فئیری لکهتے ہیں کہ کسی قوم یا تہذیب کی ترقی کا تعین اُس قوم یا تہذیب کی خواتین کے حالتِ زار کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے کہ وہاں خواتین کی حقوق کا کس طرح سے خیال رکها جاتا ہے یا وہاں کے خواتین کتنی آزاد ہیں. فریڈرک اینگلز لکهتے ہیں کہ زرعی انقلاب جو قریباً آٹھ سے دس ہزار سال پہلے شروع ہوئی تب سے مرد بطورِ طاقتور فریق سامنے آئی ہیں، اس سے پہلے مرد اور عورت برابر بلکہ ایسے سماج بهی تهے جہاں عورتوں کی زیاده عزت کی جاتی تهی. یہ ایک الگ بحث ہے کہ مرد کس طرح طاقتور فریق کے طور پر سامنے آئی اور یہ سب شاہد اس چهوٹی تحریر میں سما بهی نہ سکیں.

بیسوی صدی یعنی گذشتہ صدی میں فیمینزم پر لکهنے اور پرچار کرنے والے بہت سے لوگ سامنے آئیں، جن میں عورتیں نمایاں تهیں. طرح طرح کی فیمینزم نظریات وجود میں آئی جن میں سے کوئی کم تو کوئی زیاده اثر رکهتی تهی. اور ان میں سے کچھ تو انتہا پسندانہ انداز میں سامنے آئیں کہ جو مردوں سے کافی نفرت بهی کرتی تهیں، جنہوں یہ بهی کہا کہ شادی تو کرنی ہی نہیں، یہی تو وه چیز ہیں جس سے عورت مردوں کے مقابلے میں کمزور ہوکر ملکیت بن جاتی ہیں. وه یہ بهی کہتی کہ عورت کی جگہ ایسی ٹیکنالوجی متعارف ہونی چاہئیے جو عورت کی ایمبریو یعنی اووری کی سی کام کرسکے وه یہ کہتی تهی کہ عورت حمل کے دوران کافی کمزور ہوجاتی ہیں اور مردوں کو ان پہ دهونس جمانے کا موقع ملتا ہے. اور ایسے نظریات بهی دیکهنے کو ملتے ہیں کہ جو یہ کہتی تهی کہ فیمینزم تو کوئی نظریہ ہے ہی نہیں اور عورت بهی دو طبقوں ہی میں بٹتی ہیں یعنی امیر اور غریب. وه پدرشاہی نظام یعنی عورت ملکیت کے سخت مخالف تهی اور سمهجتی تهی کہ اصل بیماری سرمایہ دارانہ نظام ہے ہمیں آپنے مردوں کے ساتھ ملکر اس سے جان چُهڑانا ہے اور یہ عورتیں سوشلسٹ اور کمیونسٹ ہی تهیں. جنہوں نے پہلی مرتبہ ہزاروں کی تعداد میں نیویارک کی سڑکوں پر آٹھ مارچ کو خواتین کے دن کے طور پر منانے کا اعلان بهی کیا تها.

اس ضمن میں جہاں فیمینزم نے عورتوں کیلئے نمایاں کامیابیاں حاصل کی، وہیں یہ فیمینزم راستہ بٹهک کر کارپوریٹ فیمینزم بهی بن گئی، جو عورتوں کی سیاسی،سماجی،معاشی اور ذاتی حقوق کیلئے جدوُجہد کے بجائے مرد مخالف تحریک بن گئی. اس میں بهی کوئی دورائے نہیں کہ سرمایادارنہ نظام میں عورت استحصالی جبر کا سب سے زیاده شکار رہا ہے اور پدرشاہی سوچ سے بهی ابهی تک پوری دنیا یہاں تک یورپ اور تیسری دنیا کے لوگ بهی مکمل طور پر نکل نہیں سکیں ہیں. مگر پهر بهی اگر فیمینزم کارپوریٹ اور مرد مخالف ہی رہتی ہے تو یہ ایک بڑے تصادم کی طرف بهی جاسکتی ہے.

اب اگر ہم فیمینزم کو پاکستان اور بلوچستان میں دیکهیں تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہی ہونگے کہ یہ اسکا مسخ شده چہره ہی ہیں. خصوصاً پاکستان جہاں ہر چیز ہر نظریے کا مسخ شده چہره دستیاب ہے، خواه وه سوشلزم، مارکسزم، کمیونزم، فیمینزم اور مذاہب ہی کیوں نہ ہو. موجوده صدی میں پاکستان میں بهی فیمینزم کی پرچار 2012 ہی سے دیکهنے کو ملتی ہے، مگر ان فیمینسٹوں کو جیسے بلوچ عورتیں دکهائی ہی نہیں دیتیں، جو تمام تر انسانی حقوق سے محروم اور ریاستی جبر یہاں تک ریاستی مشینریوں کے ہاتهوں ہراسانی کا بهی شکار ہیں. اور نہ ہی کبهی بلوچ مسئلے پر یہ پاکستانی مارکسسٹ، سوشلسٹ اور کمیونسٹس بول پڑے ہوں. یہ اُن کی منافقت، تنگ نظری اور بلوچستان سے نوآبادیاتی رشتے ہی کا اظہار ہے.

اور نوآبادیاتی عہد میں انسانوں کے حقوق پر سلب لگائے جاتے ہیں، وہاں عورتوں اور مردوں کی تمیز نہیں کی جاتی کیونکہ قبضہ گیر کا رشتہ دونوں ہی سے ایک طرح کا ہوتا ہے اور یہی رویہ پاکستان نے بلوچ قوم اور بلوچستان سے اپنائے رکها ہے، سوائے اشرافیہ کے خواه وه مرد ہو یا عورت اُن پہ کرم نوازیوں کے در کُهلے رہتے ہیں.

اسکے برعکس ہم اگر بلوچ سماج اور بلوچ قوم کی میتهیالوجی نوآبادیاتی عہد سے ہٹ کر دیکهیں تو قدیم دور میں بهی مرد اور عورت کے برابری کا ذکر ملتا ہے. جہاں وه سیاسی، سماجی، معاشی اور ذاتی حوالے سے بهی قوم اور گهرانے میں ایک برابر فرد یا اکائی کی سی رہتے تهے. اس ضمن میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں، جیسے صورت خان مری اپنی تحریر میں سیمک بلوچ کا ذکر کرتے ہیں کہ وه اپنے مرحوم شوہر کو اپنی شاعری میں اپنا ساتهی لکهتی تهی. چاکر اعظم کے عہد میں بهی ایسے مثالیں دیکهنے کو ملتی ہیں جیسے کہ بی بی گوہر جو کہ میر چاکر کی پناه گزین ہوتے ہوئے بهی خود کفیل ہوتی ہیں، جسکی بہت ساری بھیڑ، بکریاں اور اونٹنیاں ہوتی ہیں. اسکے علاوه بلوچ عورتوں نےدورِ قدیم میں جنگوں میں بطورِ سپاه سالار کے بهی حصہ لیا ہے جن بی بی گُل بلوچ، بی بی خاتون، بانڑی ، سمی اور حانی سر فہرست ہیں، اس کے علاوه بلوچ خواتین زرخیز زمینوں اور اور مال مویشیویوں کے مالکن بهی ہوتی تهیں اور ہوتی ہیں،.

بلوچ ہمیشہ سے ہر دور میں اکثریتاً قوم پرست یعنی نیشنلسٹ رہے ہیں گوکہ نیشنلزم کی تعریف مغرب میں اٹهاروی اور انیسوی صدی میں ہوئی مگر بلوچ اس تعریف پر صدیوں پہلے بهی پورا اترتی تهی. اور آج بهی بلوچ نیشنلزم کے تحت ہی اپنی آزادی کی جنگ لڑرہی ہیں. اور نیشنلزم کی روح سے مرد اور عورت دونوں بلوچ ہی ہیں اور دونوں میں سے کسی کے ساتھ بهی امتیازی سلوک روا نہیں رکها جاتا دونوں ہم کوپہ ہو کر آپنی آزادی کی جدوُجہد میں برسرپیکار ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔