عالمی وبا کرونا؛ جذبہ، حوصلہ اور احتیاط – برزکوہی

461

عالمی وبا کرونا؛ جذبہ، حوصلہ اور احتیاط

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی بھی عالمی و علاقائی وبا نا صرف جسمانی اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھ ساتھ دیرپا نفسیاتی اثرات بھی لاتا ہے۔ ہر مرض کا جسمانی پہلو نفسیات پر اور نفسیاتی پہلو جسم پر اثر انداز ہوتا ہے، دونوں پہلووں کو لازم و ملزوم گردانا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

آج کرونا جیسا عالمی وبا پوری دنیا میں پسماندہ ممالک سے لیکر ترقی یافتہ ممالک تک کو اپنے لپیٹ میں لیکر انتہائی تیز کے ساتھ پھیل رہا ہے، اس وقت عالمی وبا کرونا سے ہزاروں انسان موت کے آغوش میں چلے گئے ہیں، شاید جلد ہی یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے۔

جب ترقی یافتہ ریاستوں اور باشعور اقوام میں نقصانات اس حد تک ہوئے ہیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پسماندہ ریاستوں کی صورتحال انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ جائیگی۔ سب سے بڑا مسئلہ صرف مادی ترقی نہیں بلکہ ذہنی پسماندگی بھی ہے۔ پسماندہ اقوام میں لوگوں کی اکثریت آج بھی قبل از مسیح دور میں جی رہے ہیں، آج بھی وہ ایک عالمی وباء کو خدا، بھگوان، پنڈت، کلیساء، بادشاہ وغیرہ کی طرف سے عذاب گردانتے ہیں۔ آج بھی تعویز، دم درود، خیرات، گائے کا پیشاب، پیر و مرشد کی منت وغیرہ سے عالمی وبا کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے اموات دن بدن بڑھتے جائینگے۔

اس عالمی وباء کے بدولت پاکستان جیسے غیر فطری ملک میں تو گدھوں کا مرنا کتوں کی عید کے مصداق ہے۔ حکمران فوج و خفیہ ادارے، سیاستدان، بیوروکریٹ، سب کے سب اندر ہی اندر سے خوشی سے بغلیں بجانا شروع کرچکے ہیں کہ چلو یہ بھی اچھا ہوا لاکھوں لوگ مریں لیکن اربوں کھربوں کا فنڈ تو ملے۔ یہی سوچ نچلی سطح پر منتقل ہوتی ہے، دکاندار، میڈیکل اسٹورز والے بھی خوش ہوئے کہ چیزوں کی قیمت میں اضافے کا ایک اور موقع ہاتھ لگ گیا۔ دوسری طرف اپوزیشن کا بھی عید ہوگیا، سیاست چمکانے اور دکھانے کی خاطر ہر طرف اپنی ہی ذات پات، مفادات کی تگ و دو۔ کرونا وائرس پاکستان جیسے غیرفطری ملک میں عالمی وباء کم سیاسی ایشو زیادہ بن گیا۔

پیر و فقیر، مولوی، امام، سیاستدان، ڈاکٹر، فوج، تاجر، دکاندار، سب کے سب آفت زدہ لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگ گئے۔ یہ سوچ کی سطح ظاہر کرتا ہے کہ بدبخت بلوچ قوم غلام ہے، تو کس قوم، کس ریاست اور کن حکمرانوں کی؟ اور ستر سالوں سے غلامی کی آغوش میں بلوچ قوم پر کس حد تک یہ غلیظ اثرات منتقل ہوئے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ اور سوچنے و غور کرنے کی یہی بات ہے کیونکہ جب عادات، خصلات، رویوں، سوچ و کردار، اعمال، سب کچھ پنجابی و پاکستانی اثرات کے بدولت بلوچ قوم میں جذب ہوں، تو فرق مٹ جاتا ہے اور جب فرق نہیں رہا تو پھر آزادی ہی کس سے مانگ رہے ہیں،جب آپ آقا اور آقا آپ سا ہو۔ اگر خدانخواستہ مجموعی طور پر بلوچ قابض کے اطوار اختیار کرلے پھر صرف نام و زبان کی حدتک بلوچ ہونا، بننا کافی نہیں ہوگا اور حقیقی معنوں میں بلوچیت فناء کے زمرے میں شامل ہوگا۔

ہم پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، عالمی وباء کرونا سے وہ اقوام کیسے اور کس طرح اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں جن کا کوئی ریاست نہ ہو؟ جن کے پاس کوئی اعلیٰ پائے کے ڈاکٹر و ہسپتال نہ ہوں؟ جن کا کوئی سائنسدان نہ ہو اور جو معاشی لحاظ سے دو وقت کی روٹی کا محتاج ہوں اور ساتھ ساتھ دوسری طرف ظلم و جبر کا شکار ہوکر لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی زندگی گذار رہے ہوں؟

جس طرح بلوچ قوم ہے، جس کی پاس اپنی مدد آپ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت ہمارے پاس احتیاط، جذبہ اور حوصلے کے سوا کوئی چیز نہیں ہے اور اس وباء سے مکمل بچاو کا طریقہ بھی انہی تین چیزوں میں پوشیدہ ہے۔ احتیاط اور جذبہ و حوصلہ اپنے ہاتھوں میں ہے، جو کرونا سے احتیاطی تدابیر ہیں، وہ واضح ہیں، اس وقت ہر شخص کو علم ہے، صرف ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا حوصلہ و جذبہ خود بھی کسی بھی جسمانی مرض و وباء کا مقابلہ کرنے، اسے شکست دینے کا موثر ذریعہ ہوتا ہے، خاص طور پر کرونا جیسے وباء کے خلاف جو کمزور مدافعتی قوت پر حملہ آوار ہوتا ہے۔

غیر ضروری و فضول روایتی باتوں، افواہوں، علاج و معالجہ، ویکسین، احتیاطی تدابیر سے گریز کرکے عالمی معیار کے سائنسی احتیاطی تدابیر اور ڈبلیو ایچ او جیسے عالمی ادراوں کے تصدیق شدہ احتیاط، علاج و ویکسین، میڈیسن کو مستند سمجھا جائے۔

بلوچ قوم ہرگز یہ امید نا رکھیں کہ قابض کی جانب سے انہیں بچانے کیلئے منصوبہ یا مدد آئیگی۔ جو قوم ایٹمی تابکاریوں سے لیکر براہ راست نسل کشی سے ہمارا صفایا چاہتا ہے وہ تو کرونا جیسے چھپے دشمن کو بلوچوں میں مزید پھیلانا چاہے گا۔ تفتان کے کرونا نرسریاں اسکی واضح مثال ہیں۔ بلوچوں کو اس چھپے دشمن کے خلاف بھی اپنا مدد آپ کرنا ہوگا۔

انسانی زندگی میں اس سے قبل بھی ایسے آفات آچکے ہیں، زندہ انسانوں کو ایسے مشکلات و مصبیت اور آفات سے گذرنا ضرور پڑتا ہے، ہر مشکل و مصبیت و طوفان کو صحیح معنوں میں سمجھنا ضروری ہے، تب بچنا ممکن ہوگا، اگر آج انسان گرمی و سردی اور برفباری کو صحیح معنوں نہیں سمجھتا تو ان سے بچنا بھی ممکن نہیں ہوتا، اسی طرح کسی بیماری، مرض و وباء کو سمجھنا پھر اس سے بچنا ممکن ہوگا۔

گوکہ موت ایک اٹل سچائی اور حقیقت ہے، اس سے پوری زندگی بچنا ممکن نہیں ہوتا، وقت سے پہلے بے مقصد موت سے بچنا انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے، جب زندگی عظیم مقصد و عظیم مشن کے ساتھ ہمرکاب ہوگا، تو موت بھی بے مقصد نہیں ہوگا۔ جب انسان خود یہ جان چکا ہو کہ میری زندگی ایک بامقصد زندگی ہے، تو بامقصد موت سے کبھی گبھراہٹ کا شکار نہیں ہوگا۔

غلام قوم ہوتے ہوئے بھی، گوکہ ہم آزاد اقوام کے برابر نہیں لیکن ہمیں ہر حالت میں ان قوموں سے خود کو کم سوچنا اور سمجھنا نہیں چاہیئے، ہمارا زاویہ نظر و نقطہ نظر، علم و شعور سے لیس ہو، نہ کہ جاہلیت و پسماندگی کا شکار ہو، پھر ہمارا ہر عمل و حرکت اور کردار ہمارے زاویہ نظر و نقطہ نظر کا آئینہ دار ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔