بلوچستان میں آن لائن تعلیم – ٹی بی پی اداریہ

408

بلوچستان میں آن لائن تعلیم

ٹی بی پی اداریہ

چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان طارق بانوری نے اٹھارہ مارچ کو یہ اعلان کیا کہ انکے ادارے نے تمام یونیورسٹیوں کو آن لائن کلاسوں کے اجراء کا کہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایچ ای سی نے انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والی کمپنیوں سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ یونیورسٹیوں میں بینڈ وڑتھ میں اضافہ کریں تاکہ آن لائن کلاسوں کے دوران کوئی رکاوٹ پیدا نا ہو۔

تاہم، آن لائن کلاسوں کا اجراء پنجاب جیسے علاقوں میں کارآمد نظرآتا ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت ایک نایاب چیز نہیں بلکہ روز مرہ کی چیز بن چکی ہے۔ لیکن بلوچستان جیسا خطہ جو زندگی کے بنیادی سہولیات سے محروم ہے، وہاں بورڈ اور پین کے علاوہ کسی بھی اور ذریعے سے تعلیم کی بات کرنا، کسی دوسری دنیا کی باتیں محسوس ہوتی ہیں۔ بلوچستان میں تعلیم کی حالت زار کا اندازہ ان اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں محض 38 فیصد مرد تعلیم یافتہ تصور ہوتے ہیں، خواتین میں 18 فیصد کے ساتھ یہ حالت مزید ابتر ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھا جائے بلوچستان میں تعلیم یافتہ اسے گنا جاتا ہے جو محض لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔

بلوچستان کے خستہ نظام تعلیم کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے، تو بلوچستان میں آن لائن کلاسوں کا مطلب یہ ہے کہ ان طالب علموں کیلئے بھی مشکلات پیدا کی جائیں، جو قلیل تعداد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گھر سے نکلتے ہیں۔ ضلع کیچ جو بلوچستان کا دوسرا بڑا ضلع ہے، اسے عرصہ دراز سے تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ سے یہ کہہ کر محروم رکھا گیا ہے کہ یہاں سیکورٹی خدشات موجود ہیں۔ اسی طرح ضلع پنجگور، قلات اور مستونگ بھی گذشتہ پانچ سالوں سے نامعلوم وجوہات کی بناء پر تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔

مذکورہ اضلاع بلوچستان کے شہری اور گنجان آباد علاقے تصور ہوتے ہیں، جہاں تک دیہی علاقوں کا تعلق ہے وہاں فون کی بنیادی سہولت تک کو ایک نعمت سمجھا جاتا ہے۔ وہ بلوچ طلباء جو خاص طور پر کراچی یا پنجاب کے یونیورسٹیوں سے واپس بلوچستان آئے ہیں، سب سے زیادہ وہ متاثر ہونگے۔ کیونکہ انکی یونیورسٹیاں انکے حالات کا ادراک رکھے بغیر کورس جاری رکھیں گے۔

چھبیس مارچ کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کے مد میں جاری لاک ڈاون کے بعد انٹرنیٹ کے استعمال میں پندرہ فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکام اس اضافے اور انٹرنیٹ کے استعمال میں ممکنہ مزید اضافہ کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو حکام انٹرنیٹ کے استعمال میں اس تیز اضافے کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ پہنچانے سے خود کو قاصر ظاھر کرتے رہے ہیں۔

تاہم اس سارے صورتحال میں مثبت بات یہ سامنے آئی ہے کہ بلوچستان کے وہ طلبا جو کوئٹہ یا خضدار جیسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں انٹرنیٹ کی رفتار قدرے بہتر ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں سے رابطہ کررہے ہیں اور کرونا جیسے عالمی وباء سے بچاو کیلئے آن لائن سیمینار منعقد کررہے ہیں۔

جب تک بلوچستان کے مذکورہ اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت بحال نہیں کی جاتی تب تک بلوچستان میں آن لائن کلاسز کا اجراء طلباء کیلئے مفید ثابت ہونے کے بجائے زحمت بنے گی۔