جنرل اسلم ایک امید ایک یقین ۔ امین بلوچ

304

جنرل اسلم ایک امید ایک یقین

تحریر۔ امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم کی تاریخ نامور شخصیات کے اچھے اور برے کرداروں سے بھری پڑی ہے، جس نے تاریخ میں اچھے کردار ادا کیئے ہیں، انھیں تاریخ میں اچھے القابات سے یاد کیا جاتا ہے، جس نے برے کردار ادا کیئے ہیں انہیں اس کے برے کردار سے یاد کیا جاتا ہے۔

تاریخ میں جو شخص اپنے وطن اور قوم کے لیئے یہ کردار ادا کرتا ہے وہ قوم کے دلوں اور زبانوں میں زندہ رہتا ہے۔ آج میں ایک ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنے جا رہا ہوں جو میرے تعریفی لفظوں کا محتاج نہیں ہے، دوستوں کے اصرار پر میں جنرل اسلم کے ساتھ گذارے ہوئے لمحات کو قلمبند کررہا ہوں۔

جنرل اسلم بلوچ موجودہ تحریک کے بانی رہنماؤں میں سے ہیں۔ جنہوں نے ۱۹۹۵ میں بلوچ قومی آزادی کی موجودہ تحریک کی داغ بیل ڈالی.

ابتدا میں سب ساتھیوں نے بہت زیادہ محنت کی اور جنگ شروع کی اور عملی طور پر بلوچ قوم کے اندر آگاہی پھیلانے کا کام شروع کیا، دوران ء جدوجہد بہت سے دوست شہید ہوئے بہت سے دوست ریاست کے عقوبت خانوں میں آج تک ازیتیں سہہ رہے ہیں، بعض نے ظاہری طور پر دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے اور بعض نے جا کر کسی دوسری کشتی کو اپنی سواری بنالیا لیکن جنرل اسلم آخری دم تک ثابت قدم رہا ہر مشکل اور مصیبت کو خندہ پیشانی سے سہتا رہا دوستوں کی ریشہ دوانیاں دشمن کی مکاریاں اُسے کوئی بھی چیز راستے سے نہ ہٹا سکا، اپنے اسی غیر متزلزل کردار کیوجہ سے وہ آج تاریخ کے صفحات اور قوم کے دلوں میں زندہ ہے.

مئی ۲۰۱۳ کو نوشکی کے قریب ہماری جنرل اسلم بلوچ سے پہلی ملاقات ہوئی، اس سے پہلے میں جنرل اسلم بلوچ کو نہیں جانتا تھا، وہ چند ساتھیوں کے ساتھ کسی خفیہ جگہ پر قیام پذیر تھا۔ وہ ایک لاغر بدن اور قدآور شخصیت تھا، ہم نے کئی دن استاد اسلم کے اوطاق(بیس کیمپ) پر گذارے اور بعد میں اپنے کام پر چلے گئے۔ اس کے بعد جنرل اسلم ہمیشہ ہمارے ساتھ رابطے میں رہا، وہ ایک جنگجو اور متحرک ساتھی تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے مشن پر کام کرتا تھا اس کے بنائے گئے حکمت ہمیشہ کامیاب رہتے تھے، اس کی جنگی تربیت بے مٹ تھی، وہ ہمیشہ ہمیں جنگی حکمت عملیاں سمجھاتا تھا، وہ اپنے تمام ساتھیوں اور قبائلی لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا، تنظیم کے حساب سے اُن کی ذمہ داری شروع میں صرف بولان علاقے کی تھی لیکن اپنی محنت، خلوص اور قائدانہ صلاحیتوں کی بِنا پر وہ پورے بلوچستان میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، وہ تنظیمی معاملات باریک بینی سے دیکھتے اور انھیں خوبصورت طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

بیس اگست دو ہزار آٹھ کو آپسی اختلافات حل کرنے کے لیئے انھوں نے نواب خیربخش مری سے ملاقات کی، وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ کہ سارے تنظیمی معاملات فرد واحد ہی چلاتے تھے اور کوئی تنظیمی اسٹرکچر واضح نہیں تھا۔ اس دوراں جنرل اسلم نے اپنی آخری حد تک کوشش کی مگر ہھر بھی مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ ایک گوریلا جنگجو ہونے کی وجہ سے انھوں نے بہت سی خطرناک جنگیں لڑیں اور ہر جنگ میں دشمن کو بہت نقصان پہنچایا، وہ قابض ریاست کے افواج کے لیئے دہشت اور خوف کی علامت بنے۔ ۲۰۱۵ میں جنرل اسلم دوبارہ نوشکی پہنچے، اس بار ہمیں بھی بلایا گیا ہم تقریبا ۱۴ ساتھی جنرل اسلم کے ساتھ شور چلے گئے۔ جہاں کچھ دن قیام کی اور ساتھیوں کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد بولان جانے کی تیاری کی اور براستہ ناگاؤ بولان کی طرف روانہ ہوئے وہاں پر ساتھیوں کا اوطاق تھا، ہم کچھ دن وہاں ٹہرے، اسی دوران پاکستانی فورسز نے وہاں آس پاس چیک پوسٹیں قائم کیں اور لوگوں کو تنگ کرنا شروع کیا۔ فوج کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو دیکھتے ہوئی جنرل اسلم نے ایک جنگی گشت نکالا اور خود اسے کمانڈ کرنے لگے، تقریبا ایک ہفتے کی مسافت طے کرنے کے بعد جب ہم ہدف کے قریب پہنچے تو پتہ چلا فوج ایک دن پہلے وہاں سے نکل گئی تھی۔ کچھ دن اور وہاں انتظار کرنے کے بعد ہم واپس ہوئے پھر استاد اسلم کیساتھ ہم بولان چلے گئے۔

ہم عمومی طور پر رات میں سفر کرتے رہے کچھ دنوں میں ہم سانگان پہنچے، جنرل اسلم بلوچ کی مہر و محبت لوگوں کے دلوں میں اب بھی زندہ تھی بلکہ ابھی تو جوان ہوئی تھی، لوگ دور دور سے ان سے ملاقات کرنے آتے اور انھیں دعوت دیتے تھے کیونکہ وہ ایک سادہ مزاج کا انسان تھا، اس لیئے وہ جلد ہی قبائلی لوگوں میں گھل مل جاتا تھا۔ ان کو تنظیمی کاموں میں بہت دلچسپی تھی وہ ہر وقت جنگ کو وسعت دینے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے، دوسری جانب پاکستان استاد اسلم سے بہت خوفزدہ تھا، جنرل کے بولان پہنچتے ہی بہت تیزی اور شدت کیساتھ قابض ریاست نے فوجی آپریشن شروع کیئے، زمینی اور فضائی آپریشن مسلسل جاری رہے اسی دوراں ۵ مرتبہ استاد اسلم دشمن کے گھیرے میں آتے رہے اور ہر مرتبہ دشمن کے ساتھ دو بہ دو لڑائی لڑکر گھیرے توڑتے رہے، پاکستانی فوج ہر محاز میں ناکام ہوتی رہی .

ایک آپریشن میں جنرل کو گھیرلیا گیا اور پاکستانی فوج کے 14 ہیلی کاپٹروں کے ساتھ تقریبا
۱۵۰۰ کے قریب ایس ایس جی کمانڈوز نے حصہ لیا، دن کے ایک بج کر ۲۰ منٹ پر شروع ہونیوالی لڑائی رات گئے تک جاری رہی اس دوراں جنرل کے ۴ ساتھی شہید اور جنرل اسلم خود زخمی ہوئے، گولی انھیں دائیں جانب بازو کے نیچے سینے پر لگی تھی۔ زخمی حالت میں بھی وہ مسلسل لڑتے رہے، رات ہونے کے بعد وہ لڑتے ہوئے گھیرے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے، پاکستانی فوج تین دن تک علاقے میں موجود رہی اور افواہ پھیلائی کہ جنرل حملے میں مارا گیا، خوش فہمی میں مبتلا ریاست یہ جاننے سے قاصر تھی کی جنرل جیسے بہادر سپوت کبھی بھی نہیں مرتے، ساتھیوں نے جنرل کو علاج کے لیئے دوسری جگہ منتقل کیا ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد دوستوں نے جنرل کو اُس علاقے سے دوسرے علاقے لے جانے کا پروگرام بنایا، اس کے بعد میں،جنرل اسلم اور سات دیگر ساتھی جن میں شہید چیئرمین فتح اور شہید اختر رستم شامل تھے دوسری طرف چلے گئے۔

اس دوراں ہمیں پتہ چلا کہ تنظیم کے اندر مسئلہ پیدا ہورہا ہے، جنرل نے ادھر ادھر حال احوال کی اور مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ ساتھیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ اس دوراں جنرل کی صحت بہت خراب ہوگئی، پھر انھیں علاج کے لئے بھیجا گیا انھیں آگے روانہ کرنے کے بعد ہم ۲۲ جولائی ۲۰۱۷ کو دوبارہ بولان کی طرف چلے گئے۔

جنرل مسلسل ہمارے ساتھ رابطے میں رہتے تھے، اس دوراں تنظیم اندرونی بحران کی طرف چلا گیااور مشکلات سامنے آئے، جنرل نے ہمت نہیں ہاری، انہوں نے کوشش جاری رکھا۔ بڑے بڑے بُت جنرل کے آگے رکاوٹ بنے مشکلات کھڑی کرنے کی کوششیں کی گئی مگر جنرل خندہ پیشانی اور ثابت قدمی سے ان سب چیزوں کو سہتے رہے، ان سب کے باوجود جنرل نے اپنا مشن جاری رکھا انھوں نے فدائی حملوں کے زریعے جنگ کو ایک نئی سمت بخشی اسکے علاوہ دوسری تنظیموں کے ساتھ رابطے کیئے اور قوم کو متحد کرنے کی کوشش کی اور “براس” کی شکل میں نوجوانوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کیا جبکہ ساتھ ساتھ یو بی اے کیساتھ جاری رہنے والی جنگ کا بھی تصفیہ کیا۔ ہم جب بولان پہنچے تو جنرل اسلم ہم سے رابطے میں رہتا تھا کیونکہ جنرل ہمارا استاد، ہمارا حوصلہ ہماری ہمت اور ہمارا ہمسفر ساتھی تھا اور اس سے بڑھ کر ہم اسے اپنا والد سمجھتے تھے۔ وہ ہمارا سر کا سایہ تھا۔

۲۵ دسمبر ۲۰۱۸ کا وہ بدقسمت دن تھا جب ہمیں اطلاع ملی کہ جنرل اسلم اپنے ۵ دیگر ساتھیوں سمیت ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے ہیں اور ہمیں یتیم کردیا ہے، تو تمام ساتھی شدید صدمے سے دوچار ہوئے اس دوراں جنرل کے ہمنواؤں نے عہد کیا کہ ہم جنرل کے مشن کو جاری رکھیں گے، جو آج بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔