استاد اسلم کردار و عمل کا پیکر ۔ شہیک بلوچ

198

استاد اسلم کردار و عمل کا پیکر

تحریر۔ شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دھرتی کے وسیع معنی و مفہوم کو لے کر رسول حمزہ توف کہتا ہے کہ میری دھرتی مجھے تنگ نظر نہیں بناتا بلکہ یہ میری نظر کو وسعت فراہم کرنے والا دوربین ہے، جس سے میں دنیا کی دیگر تہذیبوں کو دیکھ سکتا ہوں۔ دھرتی سے محبت کا جذبہ، دھرتی پر بسنے والے انسانوں کی آزادی و آسودگی کے لیئے جدوجہد کا جذبہ کس قدر خوبصورت ہے۔ یہ دنیا کیسی ہے، کیا فرق پڑتا ہے؟ فرق ضرور پڑتا ہے،اگر ہم کوئی فرق واضح کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری یہ غلامی کے اندھیروں میں گھری دنیا کیا لعن طعن سے اس کے اندھیرے دور ہوسکتے ہیں؟ کیا محض تصورات کی حد تک ہم اس حقیقت کو بدل سکتے ہیں۔ گفتار کی حد تک وہ کون ہے، جس نے اس دھرتی پر دشمن کوشکست نہ دیا ہو؟ لیکن عملی کردار کے لیئے ہمیں کون مل سکتا ہے، جس نے مخلص ہوکر ذمہ داری اٹھائی ہو؟

بہت سے سوالات کے جوابات ہمیں اس وقت مل سکینگے جب ہم عملی طور پر ڈھونڈنے نکلیں گے۔ مایوسی یا نا امیدی کمزور لوگوں کا وطیرہ ہے، جو جدوجہد کی اہمیت سے غافل ہوتے ہیں، جو عملی کردار ادا کرنے سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن ایسے لوگ کسی بھی مرحلے میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتے۔

انقلابی کردار انسانی تاریخ کے سخت سے سخت ترین حالات میں مزید نکھار کیساتھ سامنے آتا ہے اور بہتر سے بہترین فیصلے کرتا ہے۔

استاد اسلم ہمارے عہد کا مکمل ترین انسان ہے، جس طرح سارترے نے چے گویرا کو اپنے عہد کا مکمل ترین انسان کہا تھا۔ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے ان کا موقف یہ تھا کہ یہ جنگ بلوچ کی جانب سے شروع کی گئی کوئی ایڈونچرازم کی کہانی نہیں بلکہ ریاست کے جبر کا نتیجہ ہے۔

استاد پوچھتے ہیں کہ کیا
“جب وہ بلوچستان میں داخل ہوئے تو کیا ان کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار تھے یا بندوقیں تھیں؟ ”
جب وہ بندوق کےزور پر داخل ہوئے تو کیا ہم انہیں پھول پیش کرکے یہاں سے واپس بھیج سکتے ہیں؟ من حیث القوم بلوچ کو یہ مکمل انسانی اختیار حاصل ہے کہ وہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کرے۔ یہ ایک رہنما کے وہ الفاظ جن میں وہ بالکل واضح ہے، وہ اپنے جدوجہد کی بہترین وضاحت کرنا جانتے تھے، خواہ وہ عملی میدان میں ہو یا دانشورانہ سطح پر۔

استاد نے عملی میدان میں بہت کچھ سیکھا اور بلوچ قوم کو سکھانے میں نہایت مخلصانہ کردار ادا کیا۔ محاذ پر دشمن پر قہر بن کر برسنے سے لے کر جنگ کے دوران آفاقی انقلابی اصولوں کی پاسداری کی، جہاں سندھی مزدوروں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر چھوڑ دیا کہ آئندہ یہاں کا رخ نہیں کرنا یہ جنگ زدہ خطہ ہے۔

اسی طرح بلوچ ماوں پر ریاست کی جانب سے بربریت کے جواب میں دوستوں کے جذباتی ہونے پر استاد کی یہ وضاحت کہ اگر ہم بھی ریاست کی سطح پر آجاتے ہیں تو ہمارے مہذب ہونے یا ریاست کے غیر مہذبہ ہونے کے درمیان کیا فرق رہ جاتا ہے؟ بلوچ روایات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔

تحریک میں انتشار کو لے کر روایتی طرز کو مسترد کرنے اور انقلابی نقطہ نظر اپنانے پر استاد کا کردار ایک روشن ستارہ بن گیا۔ ان سے کہا گیا کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب آپ پر انگلی اٹھی، تب آپ نے بولناشروع کردیا جس کہ جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھ پر انگلی اٹھی ہی اسی لیے کہ میں بول رہا تھا۔”

استاد جیسا انقلابی کردار کہاں خاموش رہ سکتا تھا، استاد ان تمام غلط رویوں کی نشاندہی اور ان کودور کرنے کے لیے عملاً کوشش کرتا رہا۔ تنظیم کو قبائلی بنیادوں پر ملنے والے بحرانوں کے نتیجے میں استاد نے جب اداروں کی بنیاد پر از سر نو صف بندی کا مطالبہ پیش کیا اور بلوچ قومی اتحاد بابت نیک نیتی سے تمام معاملات کو دوراندیشی سے ختم کرنے کی کوشش کی تو ان کی مخالفت کی گئی لیکن ان تمام حربوں کے باوجود وہ اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہوئے۔ انہوں نے بلوچ مزاحمتی تاریخ میں وہ کام کیا جو کوئی اور رہنما کرنے سے قاصر رہا، انہوں نے ذمہ داری اٹھائی۔ استاد نے تمام تر غلط رویوں کوتسلیم کیا اور بلوچ قومی اتحاد کے لیے انقلابی طریقہ کار پر چلتے ہوئے اتحاد کی راہ کو ہموار کیا اور دیرینہ رنجشوں کا تصفیہ بھی کیا۔ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کا اتحاد استاد کی انہی سنجیدہ کوششوں کا نتیجہ تھا۔

دوسری جانب چین کے توسیع پسندانہ عزائم کو بھانپتے ہوئے بلوچ قومی تحریک میں مایوسی کی لہر کو دور کرنے کے لیے استاد نے نئی جنگی حکمت عملی ترتیب دی اور اس مرتبہ بیرگیری جذبہ لے کر بلوچ فرزند چین کے توسیع پسندانہ عزائم پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔ ریحان سے لے شہید جلال تک سب کو اپنے سینے سے لگائے رکھنا اور پھر بیرک سمیت روانہ کرنا اس دورانیے میں استاد ایک اساطیری دیوتا معلوم ہوتے ہیں۔ استاد اسلم اسپارٹا کا وہ لیونائیڈس جس نے زرکسیز کے دیومالائی طاقت سے ڈرنے کی بجائے اس سے لڑنے کو اپنے لیے اور اپنے دھرتی کے لیے اعزاز سمجھا۔

اس دھرتی پر آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا لیکن وہ سورج بھی استاد اسلم کے انقلابی کردار کو ضرور جھک کر سلام کریگا، جس نے سخت سے سخت ترین حالات میں بلوچ تحریک کی آبرو کو برقرار رکھا اور اسی روشنی کے لیے امر ہوگئے۔ جب تک مزاحمت زندہ ہے استاد اسلم زندہ ہے اور اپنے فکر کے ذریعے مظلوموں کی رہنمائی کرتا رہیگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔