بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل، بی ایس او کا کھلی کچہری کا انعقاد

115

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے آج بروز منگل 22 اکتوبر کو جامعہ بلوچستان کے اندر ایک کھلی کچہری کا اہتمام کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں طلباء نے شرکت کی۔

کھلی کچہری کے آغاز سے پہلے یونیورسٹی کے اندر ڈیپارٹمنٹ ٹو ڈیپارٹمنٹ واک کیا گیا اور جامعہ بلوچستان سکینڈل میں ملوث تمام کرداروں کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل کمیٹی زرعی کالج کے طلبا بی ایس او کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے پہنچے تو انتظامیہ انہیں اندر آنے روک دیا جس کے باعث کھلی کچہری یونیورسٹی گیٹ کے باہر روڈ پر لگائی۔

یونیورسٹی گیٹ کے سامنے طلبا کے دھرنے کے باعث ٹریفک معطل ہوگئی بعد ازاں ایڈیشل ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سے مذاکرات کے بعد تمام طلباء اور احتجاج میں شریک سول سوسائٹی کے نمائندوں کو یونیورسٹی میں داخل ہونے دیا گیا۔ دریں اثناء بی ایس او کا چارٹر آف ڈیمانڈ تقسیم کیا گیا۔

کھلی کچہری میں طلباء نے جامعہ بلوچستان سمیت بلوچستان کے دیگر تعلیمی اداروں میں طلباء کو درپیش سنگین مسائل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ان کے حل کیلئے حکام بالا سے فوری اور مؤثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ چارٹر آف ڈیمانڈ وائس چانسلر کو پیش کیا۔

مزید پڑھیں: جامعہ بلوچستان اسکینڈل، بی ایس او نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا

وائس چانسلر نے تمام مطالبات سے اتفاق کرتے ہوئے سب پر عملدرآمد کرانے کی یقین دہانی کروائی اور بی ایس او کی قیادت میں طلباء کے ایک وفد کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرنے پر اتفاق کیا۔

دریں اثنا بی ایس او رہنما حسیب بلوچ نے میڈیا میں جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بی ایس او کیی جنب سے جامعہ بلوچستان کے کامیاب احتجاج میں ہمیں ایک پرتعجب واقعہ کا سامنا کرنا پڑا جو ہمارے توقعات کے بالکل برعکس تھا اور ہمیں اسکا بہت افسوس بھی ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ احتجاج شروع کرنے سے پہلے ہم اس پریشانی میں مبتلا تھے کہ کہیں ریاستی مشینری ایکٹیو ہوکر ہمارے مظاہرے کو سبوتاژ نا کرے مگر ریاست کے برعکس حیران کن طور پر مینگل صاحب کے مریدین (بی ایس او-محی الدین) کے نرمزاروں نے ہمارا راستہ روکنے کی ہرممکن کوشش کی اور ہمیں تنبیہ کیا کہ بی ایس او کے نام پر آپ کو احتجاج کرنے نہیں دینگے حالانکہ اس سکینڈل کے اوپر وہ خود بھی سراپا احتجاج ہیں اور ہم بار بار ان کے مظاہروں میں جاکر انہیں توانائی فراہم کرتے رہے ہیں کیونکہ مدعا مشترک رہا ہے مگر ان کی طرف سے اس حساس مسئلے پر ہمیں احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے سے روکنا انتہائی افسوسناک امر تھا۔

حسیب بلوچ کا کہان ہے اس سے یقیناً یہی تاثر تقویت پا رہا ہے کہ یہ کم فہم دوست اپنی کریڈٹ خوری کے پیش نظر مظاہرے منعقد کرتے رہے ہیں جبکہ انہیں ہراسمنٹ کے اس گھمبیر مسئلے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ بی ایس او نا تو کوئی این جی او ہے جو کسی مخصوص گروہ کے نام رجسٹر ہو اور نا ہی کسی کی ذاتی جاگیر ہے بلکہ یہ ایک قومی میراث ہے اور اس میں نصف صدی سے زائد سے عظیم قومی قربانیاں شامل ہیں اس کے انقلابی آدرشوں کا پالن کرنا ہر بلوچ کا قومی فرض ہے اور ہر وہ فرزند وطن جو اس کے نظریات کے ساتھ انصاف کرنے کا مجاز ہے وہ اس ادارے کے دعوے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم ایسے بے وقوفانہ اعتراضات کا پہلے بھی سامنا کرچکے ہیں مگر ہم نے انہیں درگزر کیا ہے مگر یہ رویہ مسلسل برداشت نہیں کیا جائے گا ہمارا مذکورہ گروہ کے اعلیٰ سربراہان سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ اپنے ادارے کے اندر ڈسپلن کو قائم رکھیں اور باہمی سیاسی اقدار و اخلاقیات کا خاص خیال رکھیں وگرنہ آج کی نوجوان نسل ہلڑبازی سے بہت آگے نکل چکی ہے۔

 حسیب بلوچ نے کہا ہے کہ ہم جناب اختر مینگل صاحب سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ آپ خدارا بار بار غیرسیاسی پن کی پرچار کرنا چھوڑ دیں بلکہ اپنے نوجوان پیروکاروں کو سیاسی اقدار سکھانے کی زحمت کرلیں۔