روانگی سے پہلے ملاقات – حاجی حیدر

221

روانگی سے پہلے ملاقات

تحریر: حاجی حیدر

دی بلوچستان پوسٹ

خاران سے رخصتی سے قبل میں اس انجان شخص سے راسکوہ کے سنگلاخ پہاڑوں میں مل چکا تھا۔ جی ہاں، میں اس “انجان” شخص کے بارے میں بول رہا ہوں جس کا ذکر میں اپنی کتاب “آخری سفر” میں کر چکا ہوں۔ جس نے مجھے 20 ہزار روپے دیئے تھے کتاب پبلش کرنے کے لیئے۔ لیکن اس دفعہ وہ خود اس استحصالی اور سرمایہ دارانہ نظام کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ بالکل جسمانی حوالے سے کمزور، نڈھال تھا۔ حالاتِ حاضرہ، علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سیاست، مارکس اور لینن کی تصانیف پر بولنے والا یہ شخص بالکل مایوس تھا۔

اس سال وہ صرف ایک کتاب پڑھ چکا تھا جس کا میں ابھی حوالہ دینے والا تھا۔ وہ مجھ سے پہلے بول پڑا تھا، فرانز فینن کی لکھی گئی کتاب افتادگانِ خاک (The Wretched of the earth)۔

میں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ میں آپ پر چوری کا مقدمہ کروانے لگا ہوں، کیونکہ میں ابھی اس کتاب کے بارے میں آپ ہی سے بحث کرنے والا تھا۔ بہرحال اس پر وہ بول پڑا کہ سوچ کے پر ہوتے ہیں اور اڑ کر اپنے قدردان تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر عمومی ڈسکس میں بائیں بازو کی سیاست، New Liberal policies ،Resistance Politics، Politics in the age of big tech and contemporary resistance politics ،Identity ،Nationalism ،IMF اور بجٹ کٹوتی سے لے کر سیمون دی بوائے کی کتاب “عورت” زیر بحث رہے۔

یہ باکمال شخص Russian Literature حفظ کر چکا تھا۔ دستوئفسکی کی کتابوں پہ گفتگو کررہا تھا۔ میکسم گورکی،ٹالسٹائی، چیخوف اور ٹراٹسکی کی تصنیفات پر ادبی، تیکنیکی حوالوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ مہرگڑھ تہذیب، شاہ محمد مری کی تصانیف اور بلوچی فکشن کے لکھاری منیر آحمد بادینی کے سارے ناول نہ صرف پڑھ چکا تھا بلکہ حفظ کر چکا تھا۔

اس میٹرک پاس شخص کے پاس وہ علم تھا جو ہماری نام نہاد تعلیمی درس گاہوں میں دستیاب نہیں ہے۔ بیک وقت 6 زبانیں بولنے والا یہ شخص لال رنگ سے نفرت اور بائیں بازو کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا درس دے رہا تھا۔ بائیں بازو سیاست کا حامی مزدوروں اور کسانوں کے حق میں نعرہ بلند کرنے والا یہ شخص پاکستانی اور دیسی مارکسسٹوں کی وجہ سے مایوس تھا۔

حقوقِ نسواں پر گھنٹوں گفتگو کرنے والا شخص اب کے Feminist تحریک کو صرف سرمایہ دارانہ نظام کا پروپیگنڈہ سمجھتا ہے اور اس سے آگے کچھ نہیں۔ لیکن گرامشی کی Hegemony Theory سے ابھی بھی خوش تھا۔ اپنے آپ کو Post-Marxist تصور کرتا، بازاروں، ہوٹلوں میں بیٹھنے اور آن لائن پولٹکیس کرنے والوں کو برا بھلا کہتا ہے۔

متبادل طرزِ سیاست پر یقین کرنے والا یہ شخص اب بھی نظریاتی طور پر اپنے نظریہ پر قائم و دائم ہے۔ جب تنہائی سے ہماری روح کا دم گھٹنے لگا، رات دھیرے دھیرے اپنی سیاہ چادر سے سانولی شام کا بدن ڈھانپ رہی تھی، اچانک مجھے خیال آیا کہ 11 آگست کو اس کی سالگرہ تھی اور میں اسی فکر میں رہتا کہ اسے کیا تحفہ دینا چاہیئے؟ ایسی کیا چیز ہو سکتی ہے جسے دیکھ کر وہ حقیقی معنوں میں خوش ہو سکے؟ ایسی خوشی جس میں مصنوعی پن نہ ہو۔

اس عظیم انسان کو جو میرے لیے ایک درس گاہ کی مانند ہے، رخصت کرتے ہوئے میں مسلسل پانچ گھنٹے کی طویل ڈرائیونگ کے بعد آخر شہر پہنچ گیا۔ سڑکوں پر ہجوم کم تھا۔ رات کے وقت عدالت روڈ کی رونق ماند پڑی تھی۔ سیکریٹریٹ جنات کا مسکن دکھائی دیتا تھا۔ بقول فارس کے، اس وقت رات کی ٹھنڈی چادر اوڑھے خاموش سڑک تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے راہ گیروں کو نیند کی ماری آنکھوں سے تکتے ہوئے سونے کی کوشش میں تھی…

پھر میں اسی شام کراچی جانے والی کوچ میں سوار ہوگیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔