جنگ کیوں لازمی ہے؟ – شہیک بلوچ

221

جنگ کیوں لازمی ہے؟

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اکثر و بیشتر جنگ کے حوالے سے یوں سطحی رائے قائم کیا جاتا ہے کہ جیسے جو جہدکار جنگ لڑ رہے ہیں انہوں نے خود بخوشی مہم جوئی کے طور پر بندوق اٹھایا ہے۔کون کم بخت ہوگا جو پرامن زندگی پر پرخطر جنگ کو ترجیح دیگا لیکن کیا کبھی ان محرکات پر بھی غور کیا گیا ہے، جو ایک انسان کو بندوق اٹھانے پر مجبور کردیتے ہیں؟ کیا کبھی غور کیا گیا ہے کہ بندوق کن ہاتھوں میں ہے؟

علت و معلول سے بے خبر بس ایک سرسری سی رائے پر ہی تمہیدیں باندھنا اور مصلحت پسندی کو سراہنے سے بہتر ہے باریک بینی سے اس پہلو پر غور کیا جائے۔

انتہائی حالات میں ہی انتہائی فیصلے لیے جاتے ہیں اور غلامی کی انتہائی سی غیر انسانی کیفیت میں کوئی باشعور فرزند کیسے خاموش رہ سکتا ہے۔ وہ اگر بندوق اٹھاتا ہے تو یہ انتہائی فیصلہ بھی ایک انتہائی ذمہ داری کیساتھ کرتا ہے اور پھر اسی فیصلے کو آخری سانس تک نبھانے کا عزم۔

home sicknesسے لے کر ذہنی تناؤ اور بہت سے عوامل پھر بھی پرعزم رہنا اور جدوجہد کو ذات پر ترجیح دینا ایک عظیم ترین قربانی ہے۔ اپنے ہم فکر دوستوں کو اچانک کھو دینا مگر پھر بھی مزید پرعزم ہوکر آگے بڑھنا۔ تحریک کی کسی بھی کمزوری پر کس قدر اذیت ہوتی ہے یہ کمفرٹ زون میں بیٹھ کر کون محسوس کرسکتا ہے، پہاڑوں کے سناٹے میں یہ سب کچھ کسی اذیت سے کم نہیں ہوتی۔ کیا جہدکار ایک انسان نہیں ہوتا؟ کیا پہاڑوں میں انسان انسانی صفات سے محروم ہوجاتا ہے؟ نہیں بلکہ وہیں پر تو انسان کی انسانی صفات زیادہ حاوی ہوجاتی ہیں، وہیں تو انسان دوسروں کے لیئے جی کر انسانیت کے حقیقی معراج کو پالیتا ہے۔

جہاں تحریک کی ایک چھوٹی سی کامیابی پر دل جھوم اٹھے، جہاں ہمقدم دوست ہمت و حوصلہ ہوں اور جہاں دن رات ایک مقصد کے لیئے ہوں، ایک عظیم کردار ہی یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ آج بلوچ جہدکار قومی فرض کے لیے ایک بہت بڑی قیمت ادا کررہے ہیں
بقول شاعر
وہ قرض بھی چکائے ہیں
جو لازم بھی نہ تھے ہم پر

اپنی انفرادی زندگی کی قربانی بہت بڑی قربانی ہوتی ہے، اپنے خاندان کیساتھ رہنا، گھر بسانا اور روزگار یہ سب کچھ ایک انسان کی فطری خواہش ہے لیکن ان خواہشات کو جب قومی مقصد کے لیئے قربان کیا جاتا ہے، تب یہ بہت بڑا فیصلہ ہوتا ہے۔ایک فیصلہ جب ہوچکا ہے تو اس پر انگلی اٹھا کر کیوں کسی کی تکالیف میں اضافہ کرنا چاہیئے، وہ تو آپ کے اور میرے لیئے یہ فیصلہ لے چکا ہے کم از کم اگر ہم اس کے تکالیف کو کم نہیں کرسکتے تو بڑھانے کا ہمیں کونسا حق پہنچتا ہے؟

وہ جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ جنگ مسلط کی گئی ہے اور یہ مسلط شدہ جنگ ہم ہی ختم کرسکتے ہیں۔ جب تک نوآبادکار کو یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ وہ طاقت کے زور پر ہمیں مزید غلام نہیں رکھ سکتا تب تک یہ جنگ جاری رہیگی اور یہ بلوچ جہدکار کا شعوری فیصلہ ہے اور اس فیصلے کی رہنمائی کتاب نے کی ہے۔ کسی قبائلی جنگ میں بندوق نہیں اٹھایا گیا ہے نا ہی کسی مذہبی گروہ کے لیئے اور نا ہی کسی غلط مقصد کے لیئے بلکہ اس لیئے کہ یہ دھرتی ماں ہماری ہے اور اس پر جبر کا کسی کو حق نہیں۔ بطور انسان ہمیں آزاد ہونے کا پورا حق ہے اور اس حق کو جو بھی چھین چکا ہے اس سے آخری دم تک جنگ رہیگی۔

یہ جنگ قربانی مانگتی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ کمفرٹ زون میں کبھی فیصلے نہیں ہوتے۔ کرد لڑ رہے ہیں وہاں تو بہنیں بھی بھائیوں کے ہمرکاب ہیں۔ ایک کرد بہن نے کہا تھا کہ “میں نے اس لیئے بندوق اٹھایا تاکہ آئندہ کسی کو بندوق نہ اٹھانا پڑے” تو کیا یہ بھی جذباتیت ہے؟

آج پوری دنیا کردوں کی جدوجہد کو تسلیم کرچکی ہے، حتیٰ کے امریکہ بھی جو شروع میں ان کے خلاف تھے۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ کردوں نے اپنی جنگ اپنے قوت بازو سے جاری رکھی اور عالمی فرمائش پر کبھی اپنے جہد سے دستبردار نہیں ہوئے اور ایک قوت کے طور پر خود کو منوایا۔ اوجلان کے بقول “ہم نے دنیا کو بتا دیا کہ بندوق کے زور پر وہ ہم سے یہ جنگ نہیں جیت سکتے اور اگر وہ جنگ کو برقرار رکھینگے تو ہم بھی پیچھے نہیں ہونگے۔” یہ ایک رہنما کا فکر ہے اور اسی لیئے آج ایک منظم کرد تحریک سب کے سامنے ہے۔

ہماری جدوجہد کو منظم کرنے والے کرداروں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ان کی کردار کشی کی گئی، جنرل اسلم جیسے عظیم کرداروں کو آگے بڑھنے کی بجائے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ تمام تر حربوں کے باوجود وہ ایک منظم قومی طاقت میں بلوچ تحریک کو مجتمع کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن پھر بھی اناپرست عناصر نے اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی بجائے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کو ترجیح دیا۔ ایسی سوچ پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے جو عالمی قوت کی چاپلوسی میں اپنے ہی جدوجہد کی بنیادوں پر وار کرنے لگا ہو۔

بلوچ کی آزادی استاد اسلم جیسے کرداروں کی جدوجہد سے ممکن ہے نا کہ کسی عالمی قوت کی چاپلوسی سے۔ عالمی قوتیں بلوچ کی آزادی کا گیرنٹر نہیں ہوسکتی بلکہ بلوچ کی اپنی قوت بازو ہی بلوچ کی آزادی کا اصل ضامن ہے۔

یہ جنگ شعوری بنیادوں پر باشعور فرزند لڑ رہے ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود وہ اس کو بہتر سے بہتر انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ کامیابی یقیناً بلوچ کا مقدر ہے اور آنے والی نسلیں اس جنگ میں دی جانیوالی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھینگے۔ یہی قربانیاں ہی بلوچ کو بطور قوم اپنی منزل کو پانے اور برقرار رکھنے میں مدد دینگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔