ثناء بلوچ؛ دہشت گرد کون؟ – برزکوہی

1018

ثناء بلوچ؛ دہشت گرد کون؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

فرزند سردار عطاء اللہ مینگل شہید اسد مینگل، نواب نوروز خان، نواب اکبر خان، سنگت بالاچ خان، جنرل اسلم بلوچ، واجہ غلام محمد، کامریڈ فدا احمد، میر سفرخان، میر لونگ خان، کامریڈ حمید بلوچ، کامریڈ مجید بلوچ، آغا محمود خان، صباء دشتیاری، امیربخش بلوچ سمیت دیگر ہزاروں نامی گرامی اور گمنام شہداء کیا دہشگرد تھے اور دہشگرد ہیں؟ اگر ثناء بلوچ یہ دہشتگرد ہیں، تو آپ اور آپ کی پارٹی اور آپ کے پارٹی کے سربراہ اس وقت تک شہداء کس کو کہتے اور مانتے ہوئے آرہے ہیں؟ اگر یہ بلوچ شہداء ہیں آپ کی نظر میں، آپ کی پارٹی کی نظر میں، پھر دہشتگرد کون ہے؟ ایسا تو نہیں جب یہ زندہ ہونگے تو اس وقت یہ دہشتگرد اور ان کا کام اور عمل دہشتگردانہ اور جب یہ دشمن کے ہاتھوں مارے جائینگے تو پھر یہ شہید؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ثناء صاحب آپ کا نقطہ نظر اور زاویہ نظر یا آپ کا سوچ و اپروچ کا معیار یہی ہے تو جناب کیا یہ سب سے بدترین منافقت اور چاپلوسی نہیں، جو آپ پنجابی قوم اور پنجابی فوج کو خوش کرنے کے لیئے کررہے ہو؟

ثناء صاحب جب بلوچ سرمچار، متذکرہ شہداء بلوچستان کی فکر و فلسفے اور خاص طور پر ان کے حقیقی مقصد (قومی آزادی) کے لیئے دشمن کے خلاف لڑرہے ہیں، دشمن پر حملہ کررہے ہیں، اپنی اپنی قیمتی جانوں کو قربان کررہے ہیں، پھر ان سرمچاروں کو دہشتگرد اور انکی کاروائیوں کو دہشتگردی اور اسی جنگ میں ہلاک ہونے والے قابض دشمن کے اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرنا اور دوسری طرف آکر شہید اسد مینگل، نواب نوروز خان، نواب اکبر خان، حمید بلوچ، بالاچ خان و دیگر بلوچ فرزندوں کو شہید قرار دینا چی معنی دارد؟

ثناء صاحب اس اکیسوی صدی و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں آپ خود کو الو بنا رہے ہو یا بلوچ قوم کو؟ یا پھر آپ اب پنجابی قوم و پنجابی فوج کی چاپلوسی اور وفاداری میں اس حد تک جاچکے ہو کہ آپ اب دہشتگردی اور قومی آزادی کی جنگ کی حقیقی تعریف و معیار سے نابلد ہوچکے ہو۔

ثناء صاحب وہ غیرقوم اور پاکستانی فوج جو میری دھرتی اور آپ کے دھرتی بلوچستان میں آکر میری اور آپکی مرضی اور اجازت کے بغیر تمام انسانی، اخلاقی، عالمی، مذہبی، بلوچی، قانونی اور روایات کو توڑ کر قبضہ کرتا ہے، میرے اور آپ کے وسائل کو بے دردی سے لوٹتا ہے، بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، خواتین، بچوں کا قتل عام کرتاہے، آپ اور میری بلوچ ماں اور بہنوں کو اٹھا کر ان کی عصمت دری کرتا ہے اور انہیں ویرانے میں بے ہوش حالت میں پھر پھینک دیا جاتا ہے، ہزاروں کی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوان کو اغواہ اور تشدد کا نشانہ بناکر، ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینک دیتا ہے، بلوچ گھروں، گدانوں، جھونپڑیوں کو جلاکر راکھ کردیتا ہے، جیٹ طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں اور توپوں سے پورے کے پورے گاؤں اور بستیوں کو تہس نہس کردیا جاتا ہے، پھر بھی آپ کے سوچ و اپروچ میں یہ فوج اور فوجی اہلکار خراج عقیدت کے مستحق اور جو سرمچار اس ناپاک فوج کے خلاف اور اپنی ننگ و ناموس اور وسائل کی حفاظت، وطن کی دفاع اور قومی آزادی کے لیئے جدوجہد کررہے ہیں، وہ دہشتگرد اور ان کی کاروائیاں دہشتگردانہ عمل ہیں، پتہ نہیں پھر ثناء صاحب آپ کہاں اور کس خمیر سے بنے ہو؟ آپ میں ضمیر نامی کوئی شے موجود ہے یا نہیں؟ یہ ضرور قابل غور اور حل طلب سوال ہے؟

ثناء صاحب آپ کے ذہن میں اچھی طرح ہو، بلوچوں کے خون سے خون آلود پاکستانی فوج کا فوجی قلعہ اور بلوچستان کی اوپر پاکستانی قبضے کی ایک خطرناک نشانی یعنی نام نہاد صوبائی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر آپ جناب سرخی و پوڈر لگا کر جس انداز میں، جس چرب زبانی سے پوری رات اسکول کے بچوں کی طرح رٹا لگا کر بلوچستان اور بلوچ قوم کا داستان بیان کرتے ہو، وہ بلوچ قوم اور بلوچستان کا مسئلہ اور اس کا حل ہی نہیں ہے، نہ ہی آج اس ماں کے لخت جگر کی جدائی کے زخم اور اس بیوی کی شوہر کی جدائی کی تنہائی و غم اور نہ اس بہن کے آنسو جو اپنے بھائی کے انتظار میں بہہ رہے ہیں ان کا مداوہ ہے، اب آپ کی یہ دھواں دار اور پنجابی دوستانہ تقریروں سے ماوں، بہنوں اور بیویوں کے زخموں پر مرہم نہیں لگتا بلکہ تیزاب و نمک پاشی ہوتی ہے۔ ان تمام ماؤں بہنوں کا کلیجہ تب سرد ہوگا جب دشمن فوج کو نشانِ عبرت بنایا جائیگا۔

لیکن ثناء صاحب پھر آپ جناب آکر انہی ماں بہنوں و بچوں کی بلکہ ہر بلوچ کے خواہشات کو پورا کرنے والے بلوچ سرمچاروں کو دہشتگرد اور قابض، قاتل، ظالم پاکستانی فوج کے افسروں اور اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہو، کیا آپ کو اندازہ نہیں ہورہا ہے آپ آج صفت نہیں لعنت کے مستحق ہورے ہو؟

ثناء صاحب آپ سے زیادہ چرب زبانی، بے عمل علم و دلیل اور تجربہ رازق بگٹی کے ساتھ بھی تھا، آج وہ جس طرح اور جیسے بلوچ قوم اور تاریخ میں نشان عبرت بنا پھر آپ جیسے سبک اور چاپلوس قسم کے دوٹکے کے انسان کس کھیت کے مولی ہو، آپ کی پھر کیا اوقات اور حیثیت ہے، آپ سرزمین کے حقیقی وارثوں، متوالوں، جانبازوں اور سرمچاروں کو دہشتگرد اور قابض فوج کے افسروں اور اہلکاروں کو ہیرو اور شہید مان کر خراج عقیدت پیش کرتے ہو۔

اگر کوئی کہتا ہے کہ ثناء صاحب کی تربیت بی ایس او نے کی ہے تو میں کہتا ہوں ہرگز ایسا نہیں، ضرور ثناء بی ایس او کے پلیٹ فارم پر ہونے کے باوجود اس کی تربیت شروع سے ہی حبیب نالے پار بنگلوں میں ہوا اور اب بھی ثناء کو بھاشن دینے اور سبق پڑھانے والے وہی خدائی مخلوق ہیں، بی ایس او کی تربیت یافتہ اور بی ایس او کے حلف اٹھانے والے آج بھی ہزاروں کی تعداد میں وطن پر قربان ہوچکے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں آج بھی زندانوں میں بند ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں آج بھی وطن کی دفاع میں سرپر کفن باندھ کر زندگی اور موت کا کھیل کھیل رہے ہیں، ثناء بلوچ کو قوم پرست لیڈر، دانشور بی ایس او کا کیڈر کہنا خود قوم پرستی، لیڈری، دانشوری اور بی ایس او کی گستاخی اور توہین ہے۔

اصل میں ہمیشہ ایسے پنجابی میڈ اور تخلیق کردہ نام نہاد لیڈر، دانشور، قوم پرستی اور بلوچیت کے لبادے میں کالے بھیڑیئے اور آستین کا سانپ بن کر بلوچ قوم، خاص طور پر نوجوانوں کو اصل تحریک سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بلوچ قوم کے حقیقی مسئلے کو پانی، بجلی، صحت، کھیل و روزگار وغیرہ قرار دیکر بلوچ قوم کو محروم قوم سے تشبیہہ دیتے ہیں، یہ سب کچھ پنجابی فوج کی تخلیق کردہ سوچ ہے، جس کو ثناء جیسے فوج کے لے پالک آگے بڑھا رہے ہیں، ایسے لوگوں کو تربیت سے لیکر اسمبلیوں اور ٹی وی چینلوں تک لانے اور ان کے زبان میں طوطے کی طرح بولنے اور کہنے والے بھی فوج اور خفیہ ادارے والے ہوتے ہیں تاکہ بلوچ قوم خاص طور پر نوجوانوں کو باور ہو کہ بلوچ قوم کا مسئلہ غلامی و محکومی نہیں بلکہ محرومی ہے، پھر جب بلوچ کو یہ احساس ہوا، ہم محروم ہیں، ہماری محرومی آج نہیں کل ضرور ختم ہوگا، پھر وہ انتظار اور بے حسی میں خود محکومی اور غلامی کے خلاف قومی آزادی کی قومی جنگ اور قومی جدوجہد سے بیگانہ ہونگے اور یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ثناء جیسے خود غرض اور چاپلوس انسان سرانجام دے رہے ہیں۔

کچھ بلوچ حلقے ضرور ناسمجھی، لاشعوری، سادہ لوحی یا پھر ثناء جیسے سوچ و اپروچ رکھنے والے ایسے لوگوں کو بلوچ قوم اور بلوچستان کا خیر خواہ اور پاکستان، پنجاب اور اسلام آباد کا مخالف سمجھتے ہیں، مگر ہرگز ایسا نہیں ہے، نہ یہ لوگ خیرخواہ ہیں اور نہ ہی مخالف ہیں بلکہ یہ کٹر پاکستانی اور پنجاب کے ہمنواہ ہیں اور یہ صرف ہمارے ہی روپ میں، ہمارے ہی زبان میں ہمیں ہی بے وقوف بناکر، ایک تو پاکستان کو بلیک میل کرکے ذاتی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں، دوسری طرف پاکستان کی ایماء پر بلوچ قوم اور دنیا کے سامنے بلوچ قوم کے اصل مسئلے کو غلط ملط پیش کرکے پاکستان کو خوش اور دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آج تو ثناء بلوچ دنیا کے سامنے اپنے ٹویٹ کے ذریعے واضح پیغام دے رہا ہے کہ بلوچ سرمچار اور بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم دہشتگرد ہیں اور ان کی جدوجہد دہشتگردی کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں اور پاکستانی فوج کو خراج عقیدت کے مستحق قرار دیتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ثناء بلوچ کی اس شرمناک موقف سے سردار اختر مینگل اور بی این پی اتفاق رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کوئی وضاحت؟ اگر اتفاق رکھتے ہیں تو پھر کیا اسد مینگل، نواب اکبر خان، نوروز خان، بالاچ خان، لونگ خان، غلام محمد، فدا بلوچ، حمید بلوچ، مجید بلوچ، سفرخان، سمیت ہزاروں شہداء اور لاپتہ بلوچ دہشتگرد تھے اور دہشتگرد ہیں؟ ان تمام کی جدوجہد قومی عمل اور قومی سفر دہشتگردی تھی، اگر نہیں پھر ثناء بلوچ آج کس کے گود میں بیٹھ کر شہداء بلوچستان کے اصل وارثوں کی جدوجہد اور کاروائیوں کو دہشتگرد قرار دیتا ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔