زِر پہاز کی کامیابی کے بعد – جیئند بلوچ

572

زِر پہاز کی کامیابی کے بعد

جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مجھے بجا فخر اس بات پہ ہے کہ ہم اس عہد میں جی رہے ہیں، جہاں پہ گل زمین کی خاطر بظاہر بلوچ اپنے منظم ترین جدوجہد میں مصروف ہیں اور وطن کے سرفروش مجید بریگیڈ کی صورت قبضہ گیریت کے خلاف روز نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ یہ وہی عہد ہے، جس میں بلوچ عسکری جماعتیں اختلافت بھلا کر ”براس“ کے تشکیل کا عمل مکمل کر گئے ہیں۔

بی ایل اے موجودہ بلوچ قومی آجوئی کی تحریک کا مدر آرگنائزیشن ہے، پہلی مرتبہ بہتریں جنگی حکمت کے ساتھ قبضہ گیر ریاست کے سامنے کھڑا اسے للکار رہا ہے اور بڑی حد تک اپنی خوب صورت جنگی رموز کے سبب دشمن ریاست کے لیئے ایک حقیقی مسئلہ بن گیا ہے۔ یقیناً اس وقت بی ایل اے کی کمان نوجوان جنگی گوریلاز کے ہاتھ میں ہے جو نا صرف جنگی حکمت ترتیب دینے پر قادر ہیں بلکہ ایک منفرد سیاسی وژن اور مجتمع قومی سوچ بھی رکھتے ہیں۔ یہ دور بلوچ قومی تحریک کی نئی اور پوشیدہ جنگی اوصاف کے ساتھ ساتھ خود بی ایل اے کی نئی نمود کا بھی دور ہے۔ استاد اسلم کے روشن افکار اور جنگی رموز کو لے کر موجودہ باصلاحیت قیادت کے زیر نگر چند مہینوں میں وطن پر قبضہ گیریت سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد میں بالخصوص بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے کو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں، ان سے صرف دشمن پر لرزہ طاری اور شکست کا خوف پیدا نہیں ہوا بلکہ بلوچ سماج پر آپسی اختلاف اور دشمن کے چالوں سے جو گند پھیلا اور عام لوگوں سے لے کر تحریک میں ایندھن جیسا کردار نوجوان نسل میں مایوس کن کیفیت پیدا ہوئی، اس کا کم از کم ازالہ ہوپایا ہے۔ مجید بریگیڈ کے کاروائیوں کی بدولت قومی تحریک کی بابت 2010 کے بعد ایک نئی پرجوش فضاء نظر آرہی ہے اور لوگوں کا اعتماد مذید مضبوط ہوا ہے۔

2010 کے بعد جب بلوچ قیادت باہمی چپقلش کا شکار ہوکر الزام تراشی اور سیاسی کارکنان باقاعدہ گالم گلوچ پر اتر آئے تھے، عاقبت نااندیشوں نے بی ایل اے کے عسکری کاروائیوں کا بد قسمتی سے رخ دشمن کے بجائے اپنوں کی جانب موڑ کر اسے نفرین کا سبب بنایا۔ ایک مختصر مدت میں بی ایل اے کو مختلف نعروں میں الجھا کر متنازعہ بنانے کی سعی ناکام کی گئی، جس کا ادراک ہونے کے بعد بی ایل اے کو مشکل حالات سے موجودہ قیادت بالخصوص استاد اسلم و بشیر زیب نے نکال کر اصل کی طرف لوٹادیا۔

بی ایل اے و بی ایل ایف کے درمیاں اتحاد بناکر ”براس“ کے پلیٹ فارم سے مشترکہ جنگ کا اعلان ایک اہم کامیابی تھی، مگر مجید بریگیڈ کے پے درپے دشمن کے خلاف منظم کاروائیوں نے اسے اور جلا بخشی، خصوصاً کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ اور اب گوادر میں پرل کنٹی نینٹل ہوٹل پر حملے نے جو کامیابیاں سمیٹی ہیں، وہ ناقابل ذکر ہیں، ان سے بلوچ سماج پر قومی تحریک کے حوالے سے پیداشدہ بدگمانیوں کے بادل چھٹ گئے بلکہ دشمن محو حیرت رہی کہ ان سے ایسا کیا غلطی سرزد ہوا، جس کا بی ایل اے نے فوری فائدہ اٹھا کر انکا ملکی اور بیرونی سطح پر بیڑا غرق کردیا۔ دشمن پاکستان کے لیئے گوادر پر حملہ جی ایچ کیو سے بھی کئی گنا زیادہ خوفناک حملہ ہے، جس کے بارے میں ابھی تک بے یقینی کی کیفیت سے باہر نہیں نکلی ہے۔ اس کامیاب حملے کے کئی دن بعد تک یہ نہیں معلوم ہوپارہا کہ بی ایل اے نے کہاں سے آکر ان پر شب خون مارا اور ان کے وہ تمام عزائم تہس نہس کردیئے جس کے تحت بیرون دنیا کو گوادر پورٹ سے پرامن سرمایہ کاری کی دعوت دیتا رہا تھا۔ اور وقتا فوقتا امن کی قصیدہ گوئی کے لیے ایکسپو وغیرہ جیسے پروگرام اور کانفرنس کرتا آرہا تھا، اب ان سب پر پانی پھر گیا ہے اور دنیا کو ایک پر امن سرمایہ کاری کا خواب دکھانے کے لیئے پاکستان کو نئے سرے سے کام کا آغاز کرنا ہوگا، جو اس کے لیئے ناممکن ہے۔

گوادر حملہ یقیناً ایک خوشگوار اور ہدف کو سوفیصد کامیابی سے اچیو کرنے والا کاروائی ہے، جس پر سہرا مجید بریگیڈ کے جنگی ماہرین کے ساتھ ان چاروں فدائین کے سرجاتا ہے جنہوں نے لہو دھرتی ماں کی حفاظت پر نچھاور کرکے خود کو نمیران کیا، مگر ساتھ ہی بی ایل اے کی قیادت کو چوکنا اور مذید متحرک رہنا چاہیئے کیوںکہ چینی قونصلیٹ پر حملے کے بعد دشمن نے جو جوابی کاروائی کی اس کا نقصان بہت زیادہ تھا، اس دفعہ بھی دشمن گیڈر جیسی نفسیات سے باز نہیں آئے گا اس لیئے کامیابی کی شادمانی میں اردگرد سے غافل نا رہیئے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔