نوکنڈی: چوری، ڈکیتی اور بد امنی – الہٰی بخش نوتیزی

338

نوکنڈی: چوری، ڈکیتی اور بد امنی

تحریر۔ الہٰی بخش نوتیزی

دی بلوچستان پوسٹ

نوکنڈی شہر کی آبادی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے، اس کی اہم وجہ پہاڑی، کوہستانی و میدانی علاقوں میں موجود لوگوں کی خشک سالی کے سبب بڑے پیمانے پر نقل مکانی تھی، جہاں ان کے باغات، فصلیں اور مالداری مکمل طور پر ختم ہوکر رہ گئی تھی، جنہوں نے اس کا واحد حل یہ سمجھا کہ شہروں کی طرف رخ کیا جائے اور کاروبار زندگی کو دھکا دیا جائے، دوئم نوکنڈی سرحدی علاقہ ہے، جہاں شمال کی طرف افغانستان بارڈر ساٹھ کلومیٹر دور ہے تو دوسری جانب ساٹھ کلومیٹر کی دوری پر ایران بارڈر اور ساتھ ہی سرحدی ضلعے کا شہر ماشکیل ہے جبکہ مغرب کی طرف تفتان اور مشرق کی جانب دالبندین ہے جب ایرانی حکومت نے تفتان میں سرحدی دیوار تعمیر کرکے تجارت پر پابندی لگادی تو ہمسایہ ملک افغانستان کا سرحدی شہر “شہرنو” ٹو ماشکیل تجارت روزگار کا ایک اہم ذریعہ بن گیا، اور درمیان میں نوکنڈی شہر کی اہمیت بڑھ گئی۔ جہاں نوشکی، خاران، و دیگر قریبی علاقوں سے بڑے پیمانے پر لوگ آگئے، جس کی وجہ سے نوکنڈی ایک بڑی آبادی بننے جارہی ہے۔ نوکنڈی میں لوگوں کی معیشت و روزگار کا اصل ذریعہ تیل اور سواریوں کا کام ہے جو افغانستان سے ایران تجارت و کاروبار کے لیئے جاتے ہیں۔

چند سالوں پہلے نوکنڈی امن و امان میں مثالی علاقہ تھا، جہاں چوری، ڈکیتی درکنار قبائلی و کاروباری جھگڑے اور تنازعات سالوں تک نہیں ہوتے تھے، اب چونکہ تیل کے کاروبار اور مسافر کشی نے بڑے پیمانے پر جال پھیلا دیئے تو اکا دُکا چوری کے واقعات ہونے لگے ہیں، جہاں غیر ملکی سواریوں کے پیسے و سامان لوٹے گئے ہیں۔

نوجوانوں کی اکثریت تیل کا کاروبار کرتی ہے یا تو ڈرائیور ہوکر کاروبار زندگی چلا رہے تھے، مگر ایک دم غیر ملکی سواریوں کو لوٹنے کا سلسلہ چل نکلا، چند چور ڈاکو گرفتار ہوئے مگر ان پر کوئی انتظامی کاروائی نہ ہوسکی تو معاشرے پر اور نوجوانوں پر اس کے اثرات پڑنے لگے کہ چوری ڈکیتی کے بعد جیل جانے کے بجائے جلد رہا ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ چوری و ڈکیتی نے بڑے پیمانے پر کاروبار کی شکل اختیار کی اور نوجوانوں کی اکثریت نے سرکل فرینڈ شپ سے گینگ وار کی شکل اختیار کی اور اب نوجوانوں کی اکثریت کام دھندہ کرنے کے بجائے چند نوجوان اور دو سے تین کلاشنکوف اور ایک دو گاڑیاں لیکر لوٹ مار کرکے رات کی دیہاڑی برابر کرلیتے ہیں اور صبح شریف شہری بن کر اگلی چوری کی پلاننگ میں مصروف رہتے ہیں۔

کئی بار ان چوروں کی گرفتاری مقامی لوگوں کے ہاتھوں ہوچکی ہے اور باعزت رہا بھی ہوچکے ہیں اور اکثریت دوران واردات ہی چھوڑ دیئے گئے ہیں اور اکثر ڈکیت گینگز نے بیک اپ سپورٹ بھی بنا رکھے ہیں کہ گھیراو یا گرفتاری کی صورت میں چھڑانے کی بندوبست بھی ہوسکے، جبکہ انتظامیہ اس سلسلے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے اور ڈک سمیت لیڈھا ریک میں تومن جمع کرنے میں مصروف عمل ہے، جبکہ اس سارے عمل میں سول سوسائٹی، پولیٹیکل پارٹیز خاموش سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور کوئی آواز بلند نہیں ہورہی۔ جس سے چور و ڈکیت مزید منظم انداز میں گینگ وار کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور اکثر غیر ملکی عناصر اس مذموم کام و مذموم عمل میں شامل ہیں اور اس کام کو پروموٹ کررہے ہیں اور شہر میں والدین ان نوجوانوں کے سرپرست اپنے بچوں سے آسودہ حال ہیں، جس سے یہ نوجوان غلط راہ پر چل نکلے ہیں۔

اب سکول اور کالج لیول کے نوجوان اس عمل میں شامل ہوچکے ہیں، جو ایک پریشان کن صورتحال ہے اب نوکنڈی میں ان چور ڈکیت گروپوں نے اپنے لیے مختلف نام بنارکھے ہیں مثلاً پس گروپ، ناشاد گروپ، دل جم گروپ، تبدیلی گروپ، دل جلے گروپ، عاشق شپاد گروپ، شپ گرد گروپ سمیت مختلف گینگ وار بنتے نظر آرہے ہیں ان عوامل پر انتظامیہ، ملکی اداروں سیاسی تنظیموں، علماء، سول سوسائٹی اور قبائلی عمائدین کو سوچنا ہوگا کہ نوکنڈی کی پُرامن فضاء سے یہ چوری ڈکیتی کا فیشن چل نکلا ہے اور اس عمل کو دلیری و فخر کے طور پر جانا جارہا ہے، اور ان چوری و ڈکیتیوں کے دوران کئی لوگ مارے جاچکے ہیں اور کئی گھروں کے چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گُل ہوچکے ہیں۔

اب نوکنڈی سماجی تباہی و سماجی بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے، آج یہ مختلف گروپس چوری، ڈکیتی و لوٹ مار کے لیئے سرگرم عمل ہیں، کل کلاں یہ اس شہر، اس ضلع، اس صوبے و ملک کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتے ہیں اور یہ کئی نوجوان پانچ ہزار، چند موبائل فونز کی چوری سے آگے جاکر زیادہ مہلک جرائم میں ملوچ ہوسکتے ہیں، جس کے بُرے اثرات مرتب ہوں گے لہٰذا اس عمل پر سنجیدگی سے سوچیں، مختلف گینگ وارز پر ہاتھ ڈالیں تاکہ نوکنڈی ایک بار پھر امن و امان سلامتی کا گہوارہ بن سکے اور معاشرے کا ہر فرد بلا خوف و خطر سفر کرسکے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔