بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں امن پسند مظاہرین پر تشدد پر سنگین خدشات ہیں۔ اشرف غنی

301

دی بلوچستان پوسٹ سوشل میڈیا رپورٹر کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے آج بروز جمعرات سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ہمارا یقین ہے کہ یہ کسی بھی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان لوگوں کی شہری حقوق کی حفاظت کریں جو ہمارے خطے میں اس شددت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اواز اٹھارہے ہیں جس نے ہمارے خطے اور اجتماعی تحفظ کو خطرات سے دوچار کیا ہوا ہے۔ بصورت دیگر اسکے دور رس نتائج بھیانک ہونگے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت کو خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں امن پسند مظاہرین اور سول کارکنوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے حوالے سے سنگین خدشات ہیں۔

دریں اثنا افغانستان کے سابقہ وزیر داخلہ اور سابقہ نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سیکورٹی کے سربراہ امر اللہ صالح نے اسی حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے اس سنگین مسئلے پر یکساں تشویش کا اظہار کرتا ہوں اور افغان سول سوسائٹی سے التجا کرتا ہوں کہ وہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں پرامن شہری سرگرمیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں۔ ہم تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی حوالے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اور ایک ہم حلقے کے ہاتھوں ستم کا شکار ہیں۔

 

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اشرف غنی کے ٹویٹ کے جواب میں اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم صدر اشرف غنی کے ٹویٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ بیان صرف مداخلت ہے۔ افغان قیادت کو صرف افغان عوام کی طویل دشواریوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے اشرف غنی اور امراللہ صالح نے ایک ایسے وقت اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشین سمیت دیگر سیاسی جماعتیں جبری طور پر گمشدگیوں سمیت دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جبکہ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے ہزاروں افراد کو ماورائے قانون جبری طور لاپتہ کرنے میں ملوث ہیں۔

دوسری جانب خیبر پختونواہ سمیت دیگر علاقوں پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے گذشتہ دنوں پی ٹی ایم رہنما ارمان لونی کی پولیس کے ہاتھوں قتل کے خلاف مظاہرے کیئے جارہے ہیں۔