بلوچستان میں ثقافتی اور ادبی تنوع بڑے رچاؤ کے ساتھ موجود ہے – اکادمی ادبیات

231

ادب اور ثقافت قوموں کے تاریخی ورثے کا عکس اور ترقی کا محور ہے ۔ اور بلوچستان جہاں ثقافتی اور ادبی تنوع بڑے رچاؤ کے ساتھ موجود ہے ۔ اس کی ترقی کے لئے ادبی و ثقافتی اداروں کو اپنی سر گرمیوں کو مربوط بنانے کی ضرورت ہے ۔مقامی فن کار اور ادیب ثقافتی ورثے کو پھیلانے اور محفوظ بنانے کا کام کرتے ہیں اس لئے حکومتی اور عوامی سطح پر ان کی پذیرائی اور بہبود کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔

دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک کو ملنے والی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار مقررین نے اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام بلوچی کے  ادیب و دانشور اور بلوچی میوزک پروموٹرز سوسائٹی کے روح رواں گلزار گچکی کے ساتھ ایک نشست کے موقع پر کیا۔

اس نشست میں ڈاکٹر سلیم کرد ، اے ڈی بلوچ ، وحید زہیر ؔ ، نورخان محمد حسنی ، قیوم بیدار ؔ ، پناہ بلوچ ، عارف ضیاء ، فراز بلوچ ، مطلب مینگل اور دیگر نے اظہار خیال کیا ۔

اکادمی ادبیات کے ڈائریکٹر افضل مرادؔ نے معزز مہمان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی ادبیا ت پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ شعراء اور ادباء کو مالی معاونت او ران کی تخلیقات کو منظر عام پر لانے کے لئے ضروری انتظام کیاجائے۔ اور اس سلسلے میں اکادمی ادبیات اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے شعراء ، ادباء اور فن کاروں کو مالی معاونت فراہم کرنے کے حکومتی سطح پر ان اقدامات کو مربوط بنانے کے ساتھ ساتھ عوام کو اپنے شاعر ، ادیب اور فن کاروں کی تخلیقات سے واقف کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیقات کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔

مہمان خاص گلزار گچکی نے نشست سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کے دوستوں نے بلوچستان کے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے اور مقامی فنکاروں کی پذیرائی کے لئے مختلف پروگرام ترتیب دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس سلسلے میں بلوچی زبان کے گلوکار سبزل سامگی کے فن کی پذیرائی کے لئے ایک پروگرام منعقد کیا جا چکا ہے ۔ اور ۱۷ نومبر کو آرٹس کونسل کراچی میں ممتاز فنکار رحیم بخش ناز کی پذیرائی کے لئے ایک پروگرام منعقد کیاجائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں تمام ادبی ثقافتی تنظیموں کی معاونت کا خیر مقدم کیاجائے گا۔