قابض ریاست کی شہریت دینے کی سازش – نادر بلوچ

202

قابض ریاست کی شہریت دینے کی سازش

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جنوبی ایشیاء میں طاقت حاصل کرنے کی عالمی قوتوں کی کوششوں سمیت بالخصوص پاکستان کی افغانستان میں کمزور ہوتی ہوئی گرفت نے گریٹ گیم کو مزید خونی بناکر انسانیت کو عظیم سانحات سے دو چار کردیا ہے۔ خطے میں موجود طاقت کے طلبگار قوتیں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا مرتکب ہو رہی ہیں۔ ایران اور پاکستان محکوم اقوام پر اپنی مسلط کردہ پراکسیز کی خطرناک کھیل شروع کر چکی ہیں۔ افغانستان پر پاکستانی قبضے کے خواب سے لیکر بلوچستان میں قبضہ گیریت کو داوم دینے کی پالیسیوں کا مقصد محکوم اقوام کی آزادی اور جینے کے حق کو چھین کر پنجابی استعماریت کو مضبوط بنا کر قوموں کا استحصال کرنا ہے۔

افغان عوام اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہونے کے دعویدار ہونے کی باوجود افغانوں کے قتل عام کا ذمہ دار ہے اور افغانستان کی بربادی اور معصوم عوام کی قتل عام میں شریک اور شامل قوتوں کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں انکو سہولت مہیا کرتی ہیں۔ کوئی بھی غیرت مند افغان پاکستانی شہریت کو اپنی تذلیل سمجھتی ہے۔ اقوام متحدہ واچ لسٹ میں پاکستان پر مالی پابندیاں عائد کر چکی ہے۔ امریکہ بھی اب مالی امداد کو دہشتگردوں کے خلاف کاروائی سے مشروط کر چکی ہے۔ پاکستان افغان جنگ میں شامل اپنے پراکسیز کو تحفظ دینے کیلئے اس مذموم مقصد کو پورا کرنے اور عالمی دباو کو کم کرنے کیلئے طالبان کو پاکستانی شہریت دیکر محکوم اقوام کی سرزمین پر آباد کرنا چاہتی ہے تاکہ سانپ بھی مر جاۓ اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ کراچی میں سندھی مہاجروں کی قتل عام اور چوری و ڈاکہ زنی کے ذریعہ طالبان کی مالی امداد کے لیے اغواء برائے تاوان میں کونسی قوتیں ملوث رہی ہیں، یہ پاکستانی ریاستی ادارے پہلے ہی میڈیا میں شائع کر چکی ہیں۔ آج انہی آبادیوں کو مقامی آبادی میں ضم کر کے مہاجر، سندھی اور بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کر کے کراچی میں پنجاب کی مفادات کو محفوظ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جو سندھ کو فتح کرنے کی پنجابی اسٹبلشمنٹ کی کوشش ہے۔

قابض ریاستوں کی مقبوضہ علاقوں میں پالیسیاں ہمیشہ فوجی مقاصد کیلیے ہوتی ہیں۔ ریاست کو انکی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں ہوتی بلکہ ایسی اقدامات کا مقصد صرف اور صرف مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہوتی ہیں۔ جن علاقوں میں فوجی آپریشن کر کے عام عوام کی قتل عام کی جاتی ہے، پھر انہی علاقوں میں میڈیکل کیمپ یا مفت غذاء کی فراہمی کی جاتی ہے تاکہ قابض فوج کو عوامی غیض و غضب سے بچائی جا سکے۔ فلاحی کاموں کو انسانیت اور انسانی حقوق کے نام پر اپنی خونی کھیل کے لیئے استعمال کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں یہ تماشہ برسوں سے جاری ہے اور بلوچ قوم اپنی بنیادی انسانی حق آزادی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ جبکہ ریاست آباد کاری اور فوجی آپریشنوں کی صورت میں بلوچ قوم اکتا گئی ہے اور قوت کو کچلنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ بلوچ سیاسی تنظیمیں اور رہنماء ان پالیسیوں کو طشت ازبام کر چکی ہیں اور پاکستانی قبضہ کے دوران بلوچ وطن میں کسی بھی پاکستانی قانون اور معاہدات کو مسترد کر چکی ہیں۔

قابض ریاست نے پہلے ہی لاکھوں کے حساب سے بلوچستان کے نام پر جعلی ڈومیسائل پنجاب کی آبادی میں بانٹ دی ہیں۔ آج بلوچستان اور بلوچستان کے باہر پنجاب اور وفاق میں نوکریوں، کالجوں میں نشستوں پر بلوچستان کی نوجوانوں کی حق تلفی کر کے پنجابی کو دی جارہی ہیں۔ ایسے مسائل کو بیان کرنےکا مقصد یہی ہے کہ استحصال پر مبنی پالیسیاں ہمیشہ محکوم اقوام کو نقصان پہنچانے کیلئے ہوتی ہیں، نہ کہ انکی خوشحالی اور بہتر مستقبل سے وابستہ ہوتی ہیں۔ آج بلوچ قوم اپنی ہی سرزمین پر بیگانہ اور مہاجر کی حیثیت سے رہ رہی ہے تو کسی اور انسان کی اس جنگ زدہ ماحول میں کیسے تحفظ کر پائے گی؟ اور اپنی قومی مفادات کی نگہبانی کیسے کرے گی۔ بلوچ قوم اور سیاسی تنظیمیں بلاشبہ انسانی حقوق کی علمبردار ہیں ایشیاء سے لیکر یورپ تک انسانی حقوق کے لیئے اٹھنے والی آوازوں کی حمایت کرتی ہیں لیکن آج بلوچ قوم خود اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اپنی انسانی حقوق کی بحالی کے نام پر مہذہب دنیا میں آواز بلند کر رہی ہے لیکن خود بلوچ قوم آزادی کی بحالی کے بنا دیگر اقوام کی حقوق پر نہ پالیسی سازی کر سکتی ہے نہ ہی انکے حقوق کو تحفظ دے سکتی ہے۔

بلوچ قوم حالت جنگ میں ہے۔ پاکستانی قبضہ گیریت کو دوام دینے والی کسی پالیسی کی بلوچستان میں اطلاق غیر قانونی تصور کی جائے گی۔عمران خان پاکستانی فوج کی ایک کٹھ پتلی وزیراعظم ہیں اور فوجی اسٹبلشمنٹ کی پالیسیوں پر عمل پیراء ہے۔ جو ریاست اپنی شہریوں کو حقوق دینے میں ناکام ہوچکی ہے، وہ افغان اور بنگالی مہاجروں کو کیا حقوق دیگی۔ پاکستان اپنی داخلی مسائل اور انارکی سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ جو ملک ہزاروں بلوچ، پشتونوں، سندھیوں مہاجروں، افغانوں، ہزارہ افراد کی گمشدگیوں، قتل عام میں ملوث ہو ایسے ملک میں انسانی حقوق کی باتیں اقوام عالم کوگمراہ کرنے کی سازش ہے۔ جہاد اورطالبان کے نام پر فنڈزحاصل کرنےکاکھیل بند ہو جانے کے بعداب غیرملکیوں کی شہریت کے نام پر ڈالر لیناچاہتی ہے۔

مشرف کی قیادت میں بلوچستان پر ہونے والی فوجی یلغار کے ردعمل میں شہید نواب اکبر بگٹی کی قیادت میں شہید بالاچ مری سمیت دیگر بلوچ رہنماوں نے بلوچستان میں میگا استحصالی منصوبوں اور آبادکاری کو مسترد کرکے کسی بھی قانون سازی کو جبر اور استحصال کی علامت قرار دیکر انکے خلاف بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ بلوچ قوم کو اقلیت میں بدلنےوالی میگاپروجیکٹ ہوں یانام نہاد غیر بلوچوں کی بلوچستان میں شہریت ایسے منصوبے اورسازشوں کوبلوچ قوم مسترد کر چکی ہے۔ بلوچ سیاسی کارکن قومی پالیسیوں پر موقف واضح کرنے سے پہلے اپنی پارٹی پالیسی سے آگاہی حاصل کریں اور قومی رہنماوں کی قومی مفادات پر پالیسی اور سوچ کی ترویج کریں۔ ہر باشعور سیاسی و سماجی کارکن، امن پسند، قوم پرست و انسان دوست، تنظیمیں اور پارٹیاں ایسی انسانیت دشمن، قبضہ گیریت کے منصوبوں کے خلاف آواز اٹھا کر اپنی سرزمین اور آنیوالی نسلوں کے حقوق کا دفاع کریں۔

 دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔