مقدار نہیں معیار – برزکوہی

747

مقدار نہیں معیار

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

گوکہ جدلیات کا بانی ہیراکلیٹس ہے اور جدید سائنس بھی اس کے اصولوں کی تصدیق کرتی ہے، لیکن جدلیاتی سائنس کو تاریخ میں پہلی بار ایک جامع فلسفیانہ نظام کی شکل میں جرمن فلسفی جارج ہیگل نے پیش کیا۔ ہیگل ایک خیال پرست فلسفی تھا، تاہم اس نے جدلیات کے اہم ترین اصول دریافت کیئے۔ یہی تین اصول بعد ازاں مارکسی مفکر فریڈرک اینگلز نے مستعار لیئے۔

پہلا اصول مقدار کو معیار میں تبدیل کرنا، یعنی سماج و فطرت کے بنیادی تضادات و مقدار کو لیکر سطحی انداز میں نہیں بلکہ جدلیاتی نقطہ نظر سے پرکھنا اور معیارمیں تبدیل کرنا حقیقی انقلاب اور تبدیلی ہوگا۔

مارکسی جدلیات میں سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوری نظام یعنی نجی ملکیت کی تصور و عمل کی مقدار کو مزدوروں کی محنت اور حق کے معیار میں تبدیل کرنے کیلئے بنیادی شرط سماج میں سرمایہ دارانہ نظام اور مزدوروں کے استحصال کا وجود اور تضاد موجود ہو، تب لندن میں کیمونسٹ لیگ کی پہلی کانگریس میں فریڈرک اینگزاور کارل مارکس نے یہ اعلان کیا کہ دنیا کے تمام مزدوروں ایک ہوجاو، اسی کانگریس میں یہ طے پایا تھا کیمونسٹ لیگ کا اعلان نامہ مرتب کیا جائیگا، جسے مارکس اور اینگلز نے مل کر مرتب کیا، جو کیمونسٹ مینو فیسٹو کہلاتا جاتا ہے۔

سائنسی و فلسفیانہ اور جدلیاتی نقطہ نظر اور تجزیے کے بنیادوں پر ہم اگر بلوچ سماج کا بغور جائزہ لیں تو بنیادی تضادات کیا ہیں؟ مقدار کیا ہے؟ معیار کیا ہونا چاہیئے؟ مقدار سرمایہ دارانہ نظام، جاگیردارانہ نظام قبائلی نظام یا صنعتی نظام؟ پھر اس کے برعکس معیار پرولتاریہ جہدوجہد مزدور انقلاب یا سوشلزم؟

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بلوچ ریاست پر پاکستان کے قبضے اور بلوچ ریاست کی بحالی اور آزادی کیلے خالص بلوچ نیشلزم کا نعرہ اور اعلان نامہ قابل قبول اور قابل عمل نعرہ اور اعلان ہے، یعنی اول درجہ پر سب سے بڑا اور بنیادی تضاد جوکہ پورے بلوچ سماج کو اس وقت غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، وہ پاکستان کی بلوچ ریاست بلوچستان پر 70 سالہ قبضہ ہے، اس سے نجات اور چھٹکارہ بلوچ ریاست کی بحالی اولین مقصد اور فرض ہے۔

بلوچ نیشلزم کے نظریہ کو لیکر بلوچوں کو تحریک دینے کے علاوہ بلوچ سماج کی سماجی خدوخال بنیادی تضاد پاکستان کی حاکمیت بلوچوں کی محکومیت کے تضاد کو مدنظر رکھ کر علم و فلسفے کے تناظر میں تجزیہ کیا جائے، بلوچ نیشلزم کا نظریہ، سوچ، نعرہ و اعلان کے علاوہ باقی تمام اعلان سوچ نظریہ نہ پہلے بلوچ قوم کے درد کے دوا ہوئے، نہ آج ہونگے۔ ہاں، البتہ بلوچ جہدوجہد اور بلوچ قوم کی تقسیم کا سبب ضرور بنے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، خود نیشنلزم کیا ہے اور بلوچ نیشنلزم کیا اور بلوچ نیشنلزم کا معیار کیا ہے؟ ویسے تو جام جمالی، اخترمینگل، ڈاکٹر مالک، اسرار زہری، اسد، احسان شاہ وغیرہ بھی آپنے آپ کو بلوچ نیشلسٹ کہتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں لیکن عملاً مکمل نیشنلزم کی نفی کرتے ہیں، تو کوئی اگر ان کو الگ طبقہ جان کر بلوچ سماج میں طبقے کے وجود کا ذکر کرتا ہے، تو یہ میرے خیال میں جدلیاتی تجزیہ نہیں، سطحی تجزیہ ہوگا کیونکہ یہ ٹولے براہ راست پاکستانی ریاست کا حصہ ہیں اور پاکستان کے غیر رسمی ریاستی ادارے ہیں۔ پاکستان کے پیشہ وارانہ ملازم اور نوکر ہیں، نیشنلزم اور قومی غداری کی علمی تعریف اور اکیڈمک ریسرچ دوٹوک الفاظ میں یہ ثابت کرتا ہے، یہ نیشنلسٹ نہیں بلکہ دشمن کے شراکت دار ہوکر قومی غدار ہیں۔ تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ان کو پاکستانی سمجھ کر بلوچ ریاست پر قبضے کا اقدام سمجھا جائے۔ یہ پاکستان سے الگ کوئی شے اور طبقہ نہیں ہیں۔

اب بلوچ نیشنلزم کی بنیادی اور حقیقی معیار کو لیکر بھی ضرور بلوچ تحریک آزادی اور بلوچ سماج میں پاکستانی سیاست کے اثرات، پاکستانی نظام تعلیم کے اثرات، بلوچ قبائلی، نیم قبائلی سوچ اور فرسودہ روایات کے اثرات اور مذہبی رجعتی اثرات، یعنی منفی رویے، ضد، انا، ہٹ دھرمی، کم علمی، بے شعوری، خوشامدی، چاپلوسی، موقع پرستانہ سوچ، خوف و لالچ، خود غرضی، جھوٹ، منافقت، دھوکا و فریب، غرور، گھمنڈ، تکبر، بغض و حسد وغیرہ سب کے سب اس وقت حقیقی وہ بلوچ نیشلزم کے منافی اور بلوچ سماج کے مقدار ہیں۔ جو بلوچ قومی نجات دہندہ تحریک کی کامیابی میں رکاوٹ ہیں۔ اس لیئے اس وقت آزادی کی تحریک یا انقلابی تنظیم کیلئے اولین شرط نعرہ اور باقاعدہ یہ اعلان ہونا چاہیئے کہ مقدار نہیں، بلوچ تحریک اور بلوچ انقلابی تنظیم میں معیار ہونا چاہیئے۔

میں نے جن منفی اور غیر انقلابی رویوں کا ذکر کیا، اگر ان مقدار کے ساتھ قومی تحریک یا کوئی بھی تنظیم چلے اور چلتا رہے کیا وہ رول ماڈل تحریک بن سکتا ہے یا کامیابی حاصل کرسکتا ہے؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ تو پھر کیا ہم بحثیت بلوچ جہدکار بالاسطح سے لیکر نچلے سطح تک بلوچ قومی تحریک کی کامیابی اور رول ماڈل، ریڈیکل تنظیم کے حق میں اور خواہشمند نہیں ہیں؟ تو پھر کیوں معیار پر مقدار کو ترجیح دیتے ہیں؟ دشمن کو دکھانے کی خاطر دنیا کو دکھانے کی خاطر؟ ایک گروپ، ایک تںظیم، ایک لیڈر، ایک کمانڈر، ایک علاقہ یا ایک نیٹ ورک دوسرے سے بازی لے جانے اور مقابلہ کرنے کے رجحانات ہمیں معیار کو ترجیح دینے سے خوف زدہ کرتے ہیں۔ کیا ہر کوئی یہی نہیں سوچتا ہے کہ اگر میں معیار رکھوں گا، تو سارا مقدار دوسرے لے جائیں گے۔ میرے لیئے کچھ نہیں بچے گا، کیا یہ خوف یا لالچ خود غیر معیاری، غیر سائینسی اور غیر فلسفیانہ نہیں ہے؟

شاید تحریک اور انقلابی تنظیم میں مقدار کی وقتی اور کم مدت تک کچھ نہ کچھ فائدہ ہو لیکن مستقل طور پر جو نقصان اور اثرات سے تنظیم اور تحریک دوچار ہوگا وہ کچھ نہ کچھ فائدے بھی قصہ پارینہ بن جائینگے۔ تحریک یا تنظیم میں معیار کو اہمیت اور ترجیح دینے سے شاید وقتی اور کچھ مدت کیلئے مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہو، لیکن مستقبل میں ضرور تنظیم اور تحریک رول ماڈل تنظیم اور تحریک کی شکل اختیار کریگی۔

ابھی اہم سوال اور قابل غور بات یہ ہے کہ مقدار کا حقیقی پیمانہ تشریح اور تعریف کو سمجھنے کا زوایہ نظر، علم و سوچ اور اپروچ کیا ہے؟ اسی طرح تحریکی و انقلابی معیار کا حقیقی پیمانہ تشریح اور تعریف کیا ہے؟ ویسے تو ہر کوئی اپنے مزاج طبیعت سوچ و اپروچ اور شعور کے بل بوتے، مقدار اور معیار کی تعریف اور دعویٰ تو کرتا ہے، لیکن ضروری نہیں وہ قابل عمل اور صحیح ہو، اس مزاج شعور و اپروچ کا پیمانہ کیا ہے؟

میرے خیال میں تمام متذکرہ بالا غیر انقلابی اور منفی رویوں اور ذہنیت کو ساتھ لیکر وقتی قوت، طاقت، تنظیمی، عصبیت، شناخت، کاراوئیوں سرگرمیوں اور ہر ایک کو خوش رکھنے، ہرایک کے مزاج کے مطابق چلنے والی پالیسیوں پر عمل درآمد ہوکر پھر تحریک اور تنظیم میں معیار قائم رکھنا اپنی جگہ معیار کا سوچ رکھنے والے جہدکاروں کی بھی آخر کار خود تحریک اور تنظیم سے آہستہ آہستہ صفایا ہوگا۔ غیر انقلابی رویے اور ذہنیت پورے تحریک اور تنظیم کو اپنے لپٹ میں لے لینگے۔ آہستہ آہستہ پھر خود تنظیم اور تحریک کا صرف نام ہی بچے گا، ایسے کہیں ناکام تحریکوں کا نام آج بھی تاریخ کے صفحوں میں آسانی کے ساتھ ملتے ہیں، ان کی ناکامی کی بنیاد ی وجہ تحریک یا تنظیم میں وقتی فوائد حاصل کرنے کی خاطر مقدار کو معیار پر ترجیح دینا ہے۔

جس طرح براہوئی ذبان کا ایک مشہور مثال ہے (گندہ مریر باذ مریر)یعنی خراب ہی صحیح لیکن زیادہ ہونا چاہیئے۔ یہ سوچ خود معیار کی نفی کرتا ہے۔

یعنی کوئی جو بھی ہو جیسے بھی ہو، بس صرف پاکستان کو دشمن مانے اور بلوچستان کے آزادی کا دعویدار ہو، باقی تمام غیر انقلابی اور منفی رویوں سے کچھا کھچ بھرا ہو، پھر بھی انقلابی؟ اگر کسی بھی تحریک اور تنظیم کا زاویہ نظر اور نقطہ نظر اور انقلابی معیار یہ ہوا، تو وہ تنظیم اور تحریک صرف اور صرف پیداگیر، موقع پرست، چاپلوس، درباری اور خود غرض انسان پیدا کرسکتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن انقلابی کیڈر و لیڈر پیدا کرنا دور کی بات ہے۔

اس میں پھر مخلص، بےغرض، بہادر، قربانی دینے والے کارکنوں کا وجود ہی نہیں ہوگا۔ اوپر سے نچلے سطح تک سارے کے سارے موقع پرست، چاپلوس، مفاد پرست بےعمل، بزدل، سست و کاہل، سستی شہرت کے بھوکے ایک ساتھ متحد ہونگے۔ چند وقت کیلئے۔ پھر ان کی بھی آپسی مصنوعی اور مفادپرستی کے رشتے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکیں گے، بلکہ ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار تنظیم اور تحریک ہمیشہ ہمیشہ کیلے فنا ہوجائیگا۔

چاہے دشمن کے جبر کی انتہاء ہو، مایوسی، پریشانی اور نا امیدی کا عالم ہو، موقع پرستی، خود غرضی خوف و لالچ کے رجحانات ہو، جیسا بھی ماحول ہو، جو بھی آراء ہوں، ہمیشہ مقدار کے بجائے معیار کو اہمیت دینا، انقلابی تحریک و تنظیم اور دوراندیش اور مستقل مزاج قیادت کا علامت ہوتا ہے۔