الیکشن یا سلیکشن – گروشک بلوچ

347

الیکشن یا سلیکشن

تحریر: گروشک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سامراج ،سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ جہاں دنیا کی تمام بڑے بڑے سرمایہ دار، جنکی دنیا کی بڑی بڑی صنعتوں اور پیداوار پر اجارہ داری ہوتی ہے، دنیا کے عوام کو لوٹنے اور اپنے نظام کو مزید طاقتور بنانے کیلئے اتحاد کرلیتے ہیں اور پوری دنیا پر اپنا غلبہ اور کنٹرول قائم کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ وہ دنیا کے مختلف ملکوں کو نو آبادیات میں بدل دیتے ہیں، جیسے کہ بلوچستان کو پاکستان و ایران نے قبضہ کرکے اپنی نو آبادی بنائی ہے۔ ان پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے، اپنی حکومت قائم کرلینا۔ اپنا سرمایہ ان ملکوں میں لگاتے ہیں تاکہ سستی مزدوری اور خام مال کی ارزانی سے اپنے سرمایہ کو اور بڑھاسکیں۔

سامراج اپنی شاطرانہ چالوں سے اپنی بیوروکریسی برقرار کئے ہوئے ہیں، مطلب جس میں ریاستی نظام کے چنندہ نمائندوں کے بجائے کچھ سرکاری نمائندگان چلائیں۔ یہ جمہوری کے بجائے انتظامی طریقے سے مملکت چلانے کا نام ہے۔ لیکن نقاد کہتے ہیں کہ اب اس کے معنی بدل چکے ہیں بیوروکریسی حکومت کے اس نظام کو کہتے ہیں جس میں گندی اور استحصالی ذہنیت رکھنے والے سرکاری افسروں،عہدیداروں اور اہلکاروں کی مرضی چلتی ہو یعنی حکومت کے افسران اور ملازموں کو وہ منظم نظام جس میں ملک کے اقتدار پر ان کا عمل دخل ہو اور عوام کے مسئلوں کو حل کرنے کے بجائے دیگر ذرائع سے ان پر اپنی حاکمیت مسلط کرنا۔ چاہے جو بھی ہو اپنی من مانی کرکے ریاست میں اپنا رٹ قائم رکھنا۔

اسی طرح مقبوضہ بلوچستان میں الیکشن کے نام پر سلیکشن کرنا، جس میں اپنے من پسند بے ضمیروں کو سامنے لاکر دنیا کو یہ باور کرانا کہ یہاں الیکشن ہوا ہے اور اس میں عوام نے بھرپور شرکت کرکے سامراج پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ مگر دنیا ایسے ہتکھنڈوں سے خوب واقفیت رکھتا ہے کہ الیکشن کے نام پر کیسے یہاں سلیکشن ہوتا آرہا ہے۔

عوام کے چنے ہوئے نمائندے ملک کی سیاست اور مستقبل کے بارے میں صلاح و مشورہ اور فیصلے کرتے ہیں اور ان اداروں میں عوام کی رائے اور مرضی کے مطابق اقدامات کئے جاتے ہیں، لیکن پارلیمنٹ ان ملکوں میں آزاد ہوتی ہے، جہاں پر حکمرانی عوام دشمن یعنی سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور انکے آلہ کار فوج بیوروکریسی کی نہ ہو بلکہ محنت کش عوام کی ہو۔ جہاں اقتدار عوام کے ہاتھوں میں ہو۔ جہاں ایسا نا ہو، تو پارلیمنٹ اور رسمی انتخابات سے عوام کے حقوق نہیں ملتے اور پارلیمنٹ حکمران طبقے کی حکمرانی کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔

آمریت کسی فرد، گروہ یا خاندان کا پورے سیاسی نظام کو اپنے طابع کرنا ہے اور فیصلہ سازی بلا شرکت غیرے اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ آمریت کسی گروہ یا طبقے کی طرف سے دوسرے افراد، گروہ یا طبقوں یا قوموں پر بزور اپنی حکمرانی قائم کرنا اور صرف طاقت کے ذریعے حکمرانی کرنا ہے۔ آمریت حکومت کی ایک قسم ہے، جس میں لاقانونیت اور غنڈہ گردی کے ذریعے سے حکومت کی جاتی ہے اور محکوم عوام کو ہر قسم کے حقوق اور آزادیوں سے محروم رکھنا ہے اور حکمرانوں کی خواہش اور مرضی کے مطابق نظامِ حکومت چلانا ہے، جس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ دوسرے لفظوں میں آمریت ظلم اور جبر اور طاقت کی حکمرانی کا نام ہے۔

دراصل پاکستان جیسے ملکوں میں جمہوریت کے نام پر آمریت چلتا آرہا ہے، یہاں سیاست کی کوئی گنجائش نہیں، جو بھی چاہے آمر اپنی من مانی پورا کرتا رہتا ہے تو الیکشن کیا بلا ہوا، جس کیلئے بلوچ قوم اتنا پریشان ہورہا ہے۔ اس کیلئے پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیوںکہ جابر ریاست کو جو اپنے زور پر کرنا ہے کرتا رہیگا۔

فرض کریں بلوچ اپنی پوری قومی قوت و انرجی ووٹوں پر خرچ کرے، تو کیا کوئی سلیکشن کے ذریعے کامیاب نہیں کیا جاسکتا؟ اگر کر سکتا ہے تو کس لئے، اپنی قوت و انرجی ان جیسے چیزوں پر ضائع کریں، لہٰذا بلوچ قوم سے گذارش ہے کہ پاکستان کے نام و نہاد الیکشن کے ڈرامے سے دور رہیں بلکہ ایک مستقل مزاج جدوجہد کی پاسبانی کرکے بلوچ سر زمین اور قوم کو دشمن کے پنجرے سے آزاد کرنے کیلئے مستقل مزاجی سے جنگ کو آگے لے جانے کیلئے خاطر خواہ محنت کرنا ہوگا-