بابا نواب خیر بخش مری – بیبرگ بلوچ

935

بابا نواب خیر بخش مری

بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

تاریخ عالم اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ہر دور میں انسانی معاشرے میں چند ایسے اشخاص نے جنم لیاہے، جو روز مرہ کی عام راہوں، افکار، تصورات، منفی روایات، ذاتی و نفسانی خواہشات سے بالاتر ہو کر فکر و عمل کی نئی راہیں متعارف کرا کر انسانی معاشرے کو اعلیٰ اقدار اور آدرشوں سے واقف کراتے ہوئے مظلوم طبقات اور حق و صداقت کی آواز بن جاتے ہیں۔

ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں، جو اپنے اردگرد کے حالات اور سماج کی موجودہ شکل کو قبول نہ کرتے ہوئے ایسے غلط اور فرسودہ نظام کو بدلنے کی دھن میں ہر وقت مگن رہتے ہیں۔ وہ عام زندگی کے دھارے سے علیحدہ ہوکر کسی خواب کے تعبیر کےلیئے اپنی زندگی کی ہر خوشی اور راحت قربان کر دیتے ہیں۔ کبھی یہ لوگ سادہ پن تو کبھی صوفی تو کبھی یہ لوگ سامراجوں کے نظر میں باغی کہلاتے ہیں۔ لیکن در حقیقت اس طرح کے لوگ انقلابی ہوتے ہیں اور یہ انقلابی لوگ اپنے خیالات کی وجہ سے لعن طعن اور دشمنوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کے بغیر بھی معاشرے سیدھے راستے پر نہیں چل سکتے۔ میرے خیال میں غلط نہیں ہو گا اگر ہم یہ کہیں کہ ایسے لوگ معاشرے کے کریم Creamہوتے ہیں۔ کیونکہ در حقیقت یہی لوگ سماجی زندگی کی راہیں شناس کرتے ہیں، ان کی نظریات و افکار اور خیالات سے معاشرے کے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ اور غلامانہ سماج کے اندر ایسے لوگوں کے نظریات خیالات و افکار سے وابسطہ لوگوں کو ہمیشہ صعوبتیں، اذیت، مظالم، جلاوطنی اور سزا کی زندگی بھگتنا پڑتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے جب لوگ ان کے نظریات، خیالات اور ان کے اقوال کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور ہر شخص ان سے ذاتی فکری سلسلہ جوڑنے لگتا ہے اور تاریخ ایسے لوگوں کو رہبر و رہنماء اور ہیرو کے نام سے یاد رکھتا ہے۔

ایسے ہی مزاج کے ایک فرد نے 28 فروری 1929 کو نواب مہراللہ خان مری کے ہاں کوہستان مری کے مرکزی مقام کاہان میں جنم لیا۔ جس کا نام اپنے دادا خیر بخش کے نام کی نسبت پر خیربخش رکھا گیا۔ دیومالائی کردار ادا کرنے والا مارکسی فکر سے سرشار، گوریلا، بلوچستان کی آزادی، خوشحالی اور ترقی کے منصوبے دل اور دماغ میں سمائے کامریڈ خیر بخش مری نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کاہان کے ایک مقامی اسکول سے حاصل کیا۔ اس کے بعد سینٹ فرانسز گرائمر اسکول کوئٹہ اور باقی تعلیم ایچی سن چیف کالج لاہور سے حاصل کیا۔

جب انہوں نے جنم لیا تو پوری دنیا میں مارکسی فکر کا ہر طرف چرچا تھا، وہ جوانی میں داخل ہوئے تب دوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہو رہی تھی۔ سامراجی ممالک جنگ کی تباہ کاریوں سے کمزور ہو چکے تھے۔ کامریڈ اسٹالن کی رہنمائی میں نوآبادیاں آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے سوشلسٹ نظام کی تعمیر کے پختہ ارادے دماغوں میں سما کر اپنے اپنے ملکوں اور قوموں کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کیلئے برسرپیکار تھے۔ کامریڈ مری بھی ان ہی خیالوں سے متاثر ہوئے اور جوان سالی میں ہی کارل مارکس اور لینن کے فکر کو سمجھنے میں مشغول ہو گئے۔ کچھ سالوں کے بعد ایشیاء افریقہ اور لاطینی امریکا میں مارکسی سوچ کے تحت ہونے والے جدوجہد میں بڑے بڑے نام سامنے آئے، جن میں سے لاطینی امریکا کے عظیم مارکسی گوریلا چے گویرا کی جدوجہد نے کامریڈ مری جیسے لیڈروں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ اور مرتے دم تک چے گویرا کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس بات کا اندازہ ہم اُن کے اس قول سے لگا سکتے ہیں کہ”انقلاب اور آزادی بغیر بندوق کے حاصل نہیں ہوتے”۔

کامریڈ مری ہر محاذ پر لڑنا جانتے تھے، اگر نرم مزاجی دیکھا جائے تو نواب مری سے زیادہ نرم مزاج اور خوش مزاج کوئی نہیں تھا جو خشک روٹی کھانے پر بھی تیار تھے سخت مزاجی کا یہ عالم تھا کہ کہتے تھے “کہ ہم سور کے ساتھ رہ سکتے ہیں لیکن پنجابی کے ساتھ نہیں”۔

نواب خیر بخش مری نے اپنی پوری زندگی بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں اور بلوچ قوم کو غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیتے ہوئے گذاری لیکن قبضہ گیر ریاست کے حکمرانوں کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

آپ ہر بات دھیان سے سنتے تھے، مگر بہت کم ہی باتوں پر گفتگو کرتے تھے اگر کسی مسئلے پر بحث کی ضرورت محسوس کرتے تو اس پر کھل کر انتہائی دیانتداری سے بات کرتے تھے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وہ کبھی کسی مصنوعی خوشنودی یاناراضی کا خیال نہیں رکھتے بلکہ انتہائی اعتماد سے سچ کہہ کر موضوع کے روشن و تاریک دونوں پہلوؤں پر یکساں مدلل انداز سے بات کرتے تھے۔ وسیع مطالعہ رکھنے کے باوجود ان کے اندازء بیان سے کبھی بھی یہ گمان نہیں ہوتا تھا کہ آپ اپنی علمی برتری پر نازان ہیں بلکہ اکثر موقعوں پر اپنی کم علمی کا ذکر کیا کرتے تھے تاکہ سامنے بیٹھا ہوا شخص احساس کمتری کا شکار ہوئے، بغیر مناسب طریقے سے اپنا نکتہ نظر بیان کر سکے۔آپ ہمیشہ کہتے تھے قوم پرستی نہ صرف ایک سیاسی پروگرام ہے بلکہ ایک نصب العین بھی ہے۔ ایک ایسا نصب العین جس کی بنیاد واک و اختیار، اتحاد اور قومی شناخت کے مثبت جذبے پر رکھی جاتی ہے، یہ تینوں عناصر قومی جہد آزادی کے حصول کے لیئے افراد کو ذہنی طور پر تیار و آمادہ کرتے ہیں اس لئے حقیقی نیشنلزم کا راستہ انتہائی مشکل اور انتہائی کٹھن ہے اس راستے پر چلنے کے لئے انگاروں سے گذرنا پڑتا ہے۔

کامریڈ مری ایک ایسے انسان کی مانند تھے جو ایک طرف محبت کے جذبے سے سیر آب ہو اور ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بڑا جنگجو بھی ہو، وہ نواب بھی تھے درویش ملنگ بھی، ایک بہت بڑے طاقت کا مالک انسان لیکن پھر بھی نہایت معصوم اور نرم گو، سخت سے سخت بات بھی انتہائی درجے کے نرم لہجے میں کرتے تھے۔ وہ انسان دوست تھے لیکن دوسری جانب دشمنوں سے انتہائی سخت نفرت بھی کرتے تھے۔

ایک ایسے انقلابی صوفی تھے جو ناکبھی رکے نہ جھکے نا ٹوٹے اور نا کبھی منزل سے پہلے ڈیرے ڈالے۔ ایسی مستقل مزاجی تو سخت پہاڑوں میں بھی نہیں موسموں کی نشیب و فراز اور وقت کی ظالم رفتار تو ان سنگلاخ پہاڑوں کو رگڑ رگڑ کر فضاؤں میں ریت کی صورت میں بکھیر دیتی ہے، مگر کامریڈ کو غلامی اور برے سے برے حالت کے نشیب و فراز کے آہنی ہاتھ بھی نہ ہلا سکے۔ کامریڈ جو جدید بلوچ سیاسی تحریک کا خالق جو زندگی بھر ایک بات پر اٹل رہے کہ یہ جنگ ہماری آزادی کی جنگ ہے، جس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ نہ کسی سے کوئی ڈیل کی اور نہ تحریک کے نام پر بلوچستان کے وسائل کا سودا کیا نا کسی سامراجی قوت سے تحریک کی کمک کے نام پر سودے بازی کی۔

سلیگ ہیریسن کامریڈ مری کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سے زیادہ شائستہ، وجیہہ اور دانشور شخص میں نے بلوچوں میں نہیں دیکھا، اپنے سیاسی نظریات کے آگے وہ اپنے نوابانا عظمت کو ہمیشہ قربان کرتے آئے، انہوں نے اپنی نوابی پس پشت ڈال کر سیاسی نظریے کو اولیت دی۔

بابا مری بلوچ سیاست کا وہ تہہ دار کردار تھے کہ آخری ساعت تک ان کو کوئی سمجھ نہ پایا، وہ اکثر کسی سے گفتگو میں کوئی جملہ ادا کرتے جو چاہےایک سطر کیوں نہ ہوتا لیکن اس کے پس منظر میں ایک پیچیدہ سی کہانی گھومتی رہتی تھی۔ انہوں نے جدوجہد سے بھر پور زندگی گذاری اور وہ انتہائی مشکل حالات میں بھی ایک روشن خیال آزاد و خود مختار بلوچ وطن سے دستبردار نہیں ہوئے۔ 1933 میں ابھی محض 4 سال کی عمر کی دہلیز پر ہی قدم رکھا کہ والد سردار مہراللہ خان کا سایہ اور دست شفقت سر سے اٹھ گیا اور دوہری یتیمی نے کم سن مری کو اپنی گود میں لے لیا، مری قبیلہ دودا خان کی قائم مقام سرداری میں چلا گیا۔ انگریز سرکار نے اس توقع کے ساتھ خیر بخش مری کی ایچی سن چیف کالج لاہور میں تعلیم و تربیت کی تا کہ وہ اپنے دادا خیر بخش اول کے برعکس ثابت ہونگے، مگر اس نوجوان نے 1950 میں جب مری قبیلے کے سردار کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں، قبیلے کا سربراہ جو سیاسی، سماجی، معاشی، اور آئینی سربراہ ہوتا ہے لیکن یہ انگریز سرکار کے بھی کام نہ آیا اور انگریز کے بعد ان کے جانشینوں کو بھی بابا مری مہنگا پڑ گیا۔

نواب مری کی شہرت ایک پیدائشی قوم پرست کی ہے، انہوں نے آغاز ہی سے ان رہنماؤں کو اپنا رول ماڈل بنایا جنہوں نے 1947 میں بلوچستان کی پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت کی مخالفت کی۔ بابا مری نے 1970 کے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی اس وقت ون یونٹ کا خاتمہ کرکے بلوچستان کو ایک صوبے کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ آپ نے 1973 کے آئین پر دستخط کرنے سے بھی انکار کردیا تھا، وہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کے لئے ہمیشہ ایک معمہ رہے، بعض افراد کے لیئے وہ ایک مغرور بلوچ سردار تھے، تو دوسری طرف ان کی پہچان ایک نرم مزاج شخص کی تھی۔ وہ پاکستان میں وفاقی طرز حکومت کے حامی قوم پرستوں کی نمائندہ جماعت کے رہنماء بھی تھے، اس کے باوجود آخر عمر تک غیر بلوچوں کے لئے ایک سخت گیر بلوچ رہنماء کے طور پر جانے جاتے رہے۔ بابا مری کبھی بھی ایک علیحدہ بلوچ ریاست کے قیام کے خواب سے دست بردار نہیں ہوئے۔

آخر عمر میں وہ خرابی صحت کی وجہ سے سیاسی معاملات سے دور تھے، تاہم ان کے بیانات کو مقامی اور عالمی میڈیا میں نمایاں جگہ ملتی تھی۔

بی بی سی کے تجزیہ نگار وسعت اللہ خان نواب خیربخش مری کی شخصیت کا احاطہ ان الفاظ میں کرتے ہیں”اگر بلوچوں کی تاریخ، مزاحمت، قدامت پسندی یا قوم پرستی کو ایک ساتھ گوندا جائے تو اس مواد سے جو بھی شخصیت ابھرے گی وہ نواب خیر بخش مری کے سواء شاید کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ ذاتی المناکیاں، سیاسی و قبائلی طوفانوں کے تھپیڑے یہ سب کچھ بھی نواب خیر بخش مری کا سرخ و سفید رنگ مانند نہیں کرسکے، نواب مری کا تعلق سوچنے سمجھنے اور اوڑھنے والی اس نسل سے ہے جنہوں نے دنیا کی ڈگر پر چلنے کی بجائے دنیا کو اپنی ڈگر پر چلانے کی کوشش کی ہے ایسے مس فٹ(misfit )لوگوں میں سے کچھ کامیاب ہوتے ہیں تو ہوچی منہ، منڈیلا، کاسترو بن جاتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں نواب خیر بخش مری بن جاتے ہیں”۔

اس بات کا فیصلہ آئندہ وقت ہی کرے گی کہ بلوچوں جیسی پیچیدہ سماج کو ایک راہ دکھانے اور اسی راہ پر کٹ مرنے پر تیار کرنے والی خیر بخش مری کو تاریخ کامیاب رہنما مانتی ہے یا اس کے برعکس کوئی اور نام دیتی ہے۔ بہرحال نواب مری نے اپنی طویل جدوجہد میں بلوچوں کو منزل کی راہ دکھائی اور انہیں تحریک دی، یہ وہ عظیم کارنامہ ہے کہ اسے ایک کامیاب رہنماء ہی سرانجام دے سکتا ہے۔