پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہے

169

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کو سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہونے کا انکشاف ہوا ہے اور انہیں باقاعدہ ڈیجیٹل حملوں کی مہم کے ذریعے نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔

رپورٹ  کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 4 ماہ کی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک کرنے اور اسپائی ویئر کے ذریعے ان کے موبائل اور کمپیوٹر کو نقصان پہنچایا گیا۔

اس حوالے سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ ‘انسانی حقوق کی نگرانی، پاکستان میں انسانی حقوق کے رضاکاروں کو ڈیجیٹل خطرات’ میں بتایا گیا کہ کس طرح حملہ کرنے والوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کے لیے جعلی آن لائن شناخت اور سوشل میڈیا پروفائل کا استعمال کیا، اس کے علاوہ کس طرح ان کی نگرانی کی اور انہیں سائبر کرائم کا نشانہ بنایا گیا۔

اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنشیل میں عالمی معاملات کی ڈائریکٹر شریف السید علی کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے حملہ آوروں کے ایک وسیع نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جو انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے نفیس اور سنجیدہ طریقہ کار کا استعمال کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ حملہ آور رضاکاروں کو دھوکا دینے کے لیے بڑی چالاکی سے جعلی پروفائل بناتے تھے اور پھر کارکنوں کی الیکٹرونک ڈیوائسز پر اسپائی ویئر سے حملہ کرتے تھے، اس کے علاوہ ان کی نگرانی کرتے، دھوکا دیتے اور یہاں تک کہ انہیں جسمانی تحفظ پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ حملہ آور متاثرہ افراد کا پاسورڈ معلوم کرنے کے لیے فیس بک اور گوگل جیسے صفحات کا استعمال کرتے تھے اور پاکستان میں پہلے ہی انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ یہ عمل خطرے کی گھنٹی ہے کہ ان کے کاموں پر کس طرح آن لائن حملہ کیا جارہا ہے۔

اس رپورٹ میں سول سوسائٹی کی ایک مشہور کارکن دیپ سعیدہ کے کیس پر روشنی ڈالی گئی، جس میں بتایا گیا کہ ان کے ایک دوست اور سماجی کارکن رضا محمد خان کو 2 دسمبر 2017 کو جبری طور لاپتہ کیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد دیپ سعیدہ کی جانب سے رضا خان کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا اور لاہور ہائیکورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی، جس کے بعد انہیں مشکوک پیغامات موصول ہوئے، جس میں رضا خان کے محفوظ ہونے سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشل کی تحقیقات میں بتایا گیا کہ افغان خاتون ثناء حلیمی کے نام سے ایک فیس بک صارف نے دیپ سعیدہ سے میسنجر کے ذریعے مسلسل رابطہ کیا اور تعارف میں بتایا کہ وہ دبئی میں رہتی ہے اور اقوام متحدہ میں کام کرتی ہے۔

افغان خاتون کا دعویٰ کرنے والی اس صارف نے دیپ سعیدہ کو بتایا کہ اس کے پاس رضا خان کے حوالے سے کچھ معلومات ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے اپنی پروفائل سے ایک لنک بھیجا، جس میں ایک وائرس ‘ اسٹیلتھ ایجنٹ’ موجود تھا اور اگر اس لنک کو کھولا جاتا تو ان کا موبائل متاثر ہوسکتا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے اداروں کا ماننا تھا کہ یہ پروفائل جعلی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے دیپ سعیدہ کا ای میل ایڈریس بھی جاننے کی کوشش کی گئی، جس کے بعد انہیں ای میل پر اسپائی ویئر موصول ہونے لگے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کو اپنی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ پاکستان میں موجود انسانی حقوق کے سرگرم رضاکاروں کو اسی طرح کے طریقوں سے نشانہ بنایا گیا اور کئی مرتبہ ایسے لوگوں نے خود انسانی حقوق کے کارکن ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔

اس حوالے سے دیپ سعیدہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ ‘جب بھی میں اپنی ای میل کھولتی ہوں میں ڈر جاتی ہوں، اور میں بہت برا محسوس کر رہی ہوں کیونکہ میں اپنا کام جاری رکھنے کے قابل نہیں‘۔

رپورٹ مین بتایا گیا کہ گزشتہ کچھ ماہ میں اس بات کو دیکھا گیا کہ صحافیوں، بلاگرز، پر امن مظاہرین اور سول سوسائٹی کے اہم لوگوں اور سرگرم رضاکاروں کو دھمکیوں، پر تشدد کارروائیوں اور جمری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔