میڈیا بلیک آوٹ کی وجہ سےبلوچستان میں انسانی بحران نظروں سے اوجهل ہے :بی این ایم

255

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ کی طرف سے کوئٹہ پریس کلب میں بی این ایم کے خاتون رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس پڑھ کر سنائی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پریس کانفرنس ہم بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ کی طرف سے پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پارٹی سربراہ سمیت تمام کارکنوں کیلئے سیاست اور آزادی اظہار پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے۔ پارٹی موقف کے اظہار پر بی این ایم کے کارکنوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے دریافت ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بی این ایم کے بانی صدر غلام محمد بلوچ، ڈاکٹر منان، رسول بخش مینگل، حاجی رزاق، رزاق گل، صمد تگرانی سمیت متعدد رہمنا قتل کئے گئے ہیں یا ڈاکٹر دین محمد، غفور اور رمضان بلوچ کی طرح اٹھا کر لاپتہ کئے گئے ہیں۔ لاپتہ کا لفظ شاید صحیح نہیں ہو گا کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں وہ کہاں ہیں۔ یہ قتل و اغوا کا سلسلہ نہ بند ہوا ہے نہ تھم گیا ہے، بلکہ اس میں ہر آئے وقت کے ساتھ شدت لائی جارہی ہے۔ سنہ دو ہزار سے مشرف دور میں شروع ہونے والے اس سلسلے کو پی پی پی کی سرکار نے مزید پرتشدد بنا کر لاپتہ افراد کو جانوروں کی طرح قتل کرکے ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا۔ مسلم لیگ نے مارو اور پھینکو کے ساتھ جعلی انکاؤنٹر کا اضافہ کیا۔
پورے بلوچستان میں فوجی آپریشن، بربریت، مقامی لوگوں کی بے دخلی کا سلسلہ عروج پر ہے اور میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے یہ انسانی بحران سب کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ایسے میں آپ صحافیوں کی ذمہ داریاں د?گنی ہوجاتی ہیں کہ آپ پیشہ ورانہ فرائض ادا کرتے ہوئے صرف وزرا کی محفلوں، ظہرانہ و عشائیہ کی کوریج تک محدود نہ رہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کوئٹہ سے باہر گوادر، تربت، پسنی، دشت، مشکے آواران، کولواہ، جھاؤ، پنجگور پروم، کوہلو، سوئی، ڈیرہ بگٹی، بولان سمیت کئی علاقوں میں آپ کو شاید داخلے کی اجازت نہیں، اگر ایسا ہے تو آپ دنیا کو بتائیں کہ ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔ آپ کی زندگی میں صرف بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں نہیں پھینکی جارہی ہیں، انسانیت کو مسخ کیا جارہا ہے۔ جب تاریخ لکھی جائی گی، یہ دور انسانیت کی تاریخ کے بدترین ادوار میں شمار ہو گا۔ کیا آپ خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گے؟ کل ہم اور آپ اپنی نئی نسل کو کیسے مطمئن کریں گے کہ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا ہم نے کیا کیا۔
انہوں نے کہا کہ آواران کولواہ میں فوجی آپریشن کا یہ ساتواں دن ہے، جس میں بے شمار خاندان، خواتین و بچوں سمیت، محصور ہیں۔ اس آپریشن میں کئی گاڑیاں اور دس سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر اور جیٹ حصہ لے رہے ہیں۔ شیلنگ سے کئی لوگوں کے زخمی یا ہلاک ہونے کے خدشات ہیں۔ اب تک تین لاشیں آواران ہسپتال میں لائی جاچکی ہیں۔ جن میں دو کی شناخت عبدالغنی اور عبدالغفور کے نام سے ہوئی ہیں۔ خوراک کی قلت اور گرمی کے باعث کئی بیماریوں کے خدشات ہیں، جس سے کئی جانیں جا سکتی ہیں، خاص کر بچوں کی۔،ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوششوں کی اطلاعات ہیں۔ کیا ہمارا اور آپ کا فرض نہیں بنتا کہ ان حالات کوعوام کے سامنے من و عن پیش کریں۔ خواتین رہنماؤں نے بی این ایم کے چئیرمین کی پریس کانفرنس پڑھتے ہوئے مزید کہا کہ آپ کے علم میں ضرور ہوگا کہ دو سال پہلے عیدالفطر کے دن اٹھارہ جولائی کو انہی علاقوں میں اسی طرح کے ایک آپریشن میں کئی لوگ شہید، زخمی یا حراست کے بعد لاپتہ کر دیے گئے تھے۔ ایک مہینہ بعد محاصرہ ختم ہونے پر پتہ چلا کہ دو درجن سے زائد گاؤں و بستی صفحہ ہستی سے مٹائے گئے ، کئی لوگ لاپتہ ہو گئے۔ صرف ایک لاش ایک برساتی نالے سے ملی تھی، جو نذیر بلوچ کے نام سے شناخت ہوئی۔ بی این ایم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹوں میں ان کی ویڈیو ثبوت بمعہ تفصیل موجود ہے۔ اگر اس دفعہ بھی ہم اور آپ خاموش رہے تو صورتحال مختلف نہیں ہوگی بلکہ اور گھمبیر ہوگی اور سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود ہم نے خاموشی پر اکتفا کیا تو اس سیاہ باب میں سب قصور وار ٹھہریں گے۔
انہوں نے چیئر مین خلیل بلوچ کا پیغام پڑھتے ہوئے کہا کہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ بروری کی طرف نیوکاہان کا دورہ کریں تو ان حالات کی ایک تصویر وہاں بھی دیکھنے کو ملی گی۔ نیوکاہان کے مکینوں کو ریاستی فورسز کی جانب سے زبردستی اپنے گھروں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ سرکاری سرپرستی میں کوئٹہ ڈولپمنٹ اتھارٹی (کیو ڈی اے) ایک مارکیٹ بنانے کے نام پر مالکان کی مرضی کے برخلاف گھروں کو بلڈوز کررہا ہے۔ لیکن میڈیا، انسانی حقوق کے ادارے اور سول سوسائٹی دوسرے مظالم کی طرح اس سے بھی چشم پوشی کر رہے ہیں۔ کیا اس چشم پوشی سے ہم اور آپ محفوظ رہیں گے؟ کیا خاموشی سے یہ سب ختم ہو جائے گا؟ نہیں۔ اگر اس طرح چلتا رہے کل ہم اور آپ بھی اس ظلم کا شکار ہوں گے۔ ہمارے بھی گھر جلیں گے۔ ہمارے بیٹے اور بھائی اغوا ہوں گے۔ ہم بھی اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشوں کو پہچاننے کی اذیت سے گزریں گے۔ کیوں نہ ہم اس بربریت کو یہیں روکنے کی کوشش کریں؟ کیوں نہ ہم اپنا کردار ادا کریں؟۔