دی بلوچستان پوسٹ خصوصی رپورٹ:۔

گذشتہ دنوں ایک امریکی تھنک ٹینک نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک محفوظ، مضبوط اور زیرزمین اسلحہ خانہ بلوچستان میں تعمیر کرچکا ہے جس کا مقصد بیلسٹک میزائل اور کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنا ہے ۔ یہ زیر زمین کمپلیکس ایک بیلسٹک میزائل بیس کے قریب بنائی جارہی ہے جس کی شناخت ایف اے ایس The Federation of American Scientists کے ہینس کریسٹنسن نے کی۔

دریں اثناء امریکی تھنک ٹینک The Institute for Science and International Security نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نیو کلیئر سائٹ کے تین داخلی راستے اور ایک امدادی علاقہ ہے ۔ اس کمپلیکس کو کیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں بنایا گیا ہے ۔ یہ بلوچستان اور سندھ کا سرحدی پہاڑی سلسلہ ہے ۔ مذکورہ تھنک ٹینک نے اس وقت تحقیقات کا آغاز کیا جب ایک صحافی نے انہیں اس علاقے کے کو آرڈینٹس فراہم کیئے تھے۔

Figure 1. A 2014 DigitalGlobe image showing the layout of the underground site and new security measures that create a secure complex.
Figure 2. A 2012 Google Earth image shows the excavated spoil piles at the three tunnel entrances.

حالانکہ یہ سائٹ بلوچستان میں واقع ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے مختلف بغاوتی تحریکوں سے متاثر رہی ہے۔ تھنک ٹینک نے مزید کہا ہے کہ یہ علاقہ عالمی سرحدوں سے دور ایک محفوظ علاقے میں پہاڑوں کے وسط میں تعمیر کی گئی ہے۔ جو اسے ایک محفوظ جگہ بناتی ہے۔یہ اسلحہ خانہ ایک بیلسٹک میزائل بیس کے قریب واقع ہے جسے سب سے پہلے FAS نے دریافت کیا۔ جس کی تعمیر 2004 سے لیکر 2010 تک ہوئی۔ایف اے ایس اور امریکی تھنک ٹینک دونوں کا ماننا ہے کہ یہ میزائل بیس اصل میں بیلسٹک میزائل اور Transporter Erector Launchers کا ذخیرہ خانہ ہے ۔یہ میزائل بیس کئی فوجی اڈوں کے جنوب میں واقع ہے، جن میں خضدار کا فوجی تربیتی مرکز ، خضدار فوجی چھاونی اور خفیہ اداروں کے مرکز قائم ہے جو مضبوط حفاظتی حصار میں ہیں۔

یہاں چھاونی کے قریب سے بجلی کا ایک ہائی وولٹیج لائن بھی بچھائی گئی ہے جو پہاڑی سلسلے سے ہوتے ہوئے اس اسلحہ خانہ کے قریب تک پہنچتی ہے۔ بجلی کا یہ لائن ویران جگہوں سے گذرتا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ لائن اس پہاڑی اڈے کو بجلی مہیا کرنے کیلئے بچھائی گئی ہے۔

Possible Ballistic Missile Base. Source: FAS

دی انسٹیٹوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی نے تین داخلی سرنگی راستوں کی بھی شناخت کی ہے جو کیرتھر پہاڑی سلسلے میں واقع اس اسلحہ خانے تک رسائی دیتے ہیں ۔جن میں سے دو اس علاقے میں واقع ہیں جن کا پتہ ایک صحافی نے دیا تھا۔

مذکورہ تھنک ٹینک کا ماننا ہے کہ تعمیر کا آغاز 2009 -2010 میں ہوئی اور یہ اگلے دو سالوں تک چلتا رہا ۔ اس سائٹ کا سپورٹ ایریا کو بلا واسطہ کئی داخلی سرنگوں سے ایک کچی سڑک جوڑتی ہے ۔ شناخت کیئے گئے تین داخلی راستے بہت وسیع ہیں جن سے بڑی گاڑیاں بآسانی گذر سکتی ہیں ۔

Powerline from the military base to the Support facility or area at the underground complex and continuing onward into the desert. It passes closely by the Support area, where in a 2014 image new construction can be seen.

مذکورہ ادارے نے اس علاقے میں 2011 کے مقابلے میں 2014 میں سیکیورٹی کے تعداد میں بے تحاشہ اضافے کا بھی مشاھدہ کیا ۔ اس سائٹ کے بابت کوئی بھی معلومات عام نہیں کی گئی ہیں لیکن یہ بات ظاھر ہوتی ہے کہ پاکستان اس سائٹ کی تعمیر اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے اور بوقت ضرورت یہاں سے ایٹمی حملے کرنے کیلئے کی ہے ۔ یہ علاقہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کیلئے موزوں ترین جگہ ہے کیونکہ ایٹمی حملہ کرنے کیلئے پاکستان کا چنندہ ہتھیار وار ہیڈ میزائل ہیں۔ لیکن یہ علاقہ بلوچستان میں واقع ہے ۔ جہاں اب تک آزادی کی کئی تحریکیں اٹھ چکی ہیں اور پاکستان کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کیلئے ایک ایسی جگہ ضرورت ہے جو اسکے عالمی سرحدوں خاص طور پر بھارت سے بہت دور واقع ہو ۔

Underground complex in perspective view showing the Support area and underground tunnel entrances.

اس حوالے سے نامور بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے 2016 میں ٹویٹر پربتایا تھا کہ کس طرح پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بلوچستان کے علاقوں میں زخیرہ کر رہا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ خضدار کے علاقے ساسول میں پاکستانی افواج علاقہ مکینوں کو وہاں سے نکال رہا ہے، تاکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو محفوظ رکھ سکے۔

حال ہی میں شائع ہونے والی تفتیشی رپورٹ اور انسٹیٹوٹ آف سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکورٹی کی رپورٹ، بلوچ لیڈر کے دعویٰ کو سچ ثابت کرتی ہے۔