کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج

267

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کے لیے احتجاج کو 3909 دن مکمل ہوگئے جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت گذشتہ دنوں کوئٹہ سے لاپتہ کیئے جانے والے حزب اللہ قمبرانی اور محمد حسان قمبرانی کے لواحقین نے شرکت کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کیمپ کو گذشتہ روز کراچی سے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر کے مطابق سردیوں میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو کراچی منتقل کرکے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا گیا تاہم دوبارہ کیمپ کوئٹہ منتقل کرکے لاپتہ افراد کے بازیابی تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

ماما قدیر بلوچ کا اس موقعے پر وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انسانی خون پانی کی طرح بہنے لگتا ہے تو مظلوم لوگ تنگ آکر اپنا حق لینے کے لیے جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں اور حقوق غصب کرنے والے ظالموں، ان کے حواریوں اور تنخواہ داروں سے ٹکراتے ہیں اس طرح کے واقعات نصب صدی سے بلوچستان کے اندر وقفے وقفے سے رونما ہوتے رہے ہیں جہاں مظلوم اپنے حقوق کی جنگ لڑرہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں میں آگ و خون کے منظر کو گہرا کرنے والی ریاستی قوتیں آئے روز نت نئے انسانی المیوں اور جبر و استبداد کے بہیمانہ مظاہر سامنے لارہی ہے گذشتہ دنوں کوئٹہ کے علاقے کلی قمبرانی میں فوجی آپریشن کی گئی جہاں پاکستانی فورسز نے تین نوجوانوں حسان قمبرانی، حزب اللہ قمبرانی اور امیت شاہ کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی روز کا معمول بن چکا ہے مگر حکمران قوتیں ان زمینی نا قابل تردید حقائق کو کسی کی اختراع قرار دے کر بلوچستان میں جاری فورسز کے آپریشن سے مکمل طور پر انکاری ہیں لیکن فوجی کاروائیوں سے انکار کے دعووں کی ایک اور نفی گذشتہ ماہ بولان، آواران، دشت اور مختلف علاقوں میں فورسز کے آپریشن میں نظر آتی ہے جن میں مقامی آبادیوں کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچا جبکہ عوام کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس موقعے پر وی بی ایم پی کیمپ میں موجود حسان قمبرانی کے ہمشیرہ حسیبہ قمبرانی نے کہا کہ میرے بھائی حسان قمبرانی کو کزن حزب اللہ قمبرانی کے ہمراہ 14 فروری کو فورسز نے اس وقت حراست میں لیکر لاپتہ کیا جب وہ سودا سلف لینے کیلئے بازار گئے تھیں۔

حسیبہ قمبرانی نے وزیر اعلیٰ بلوچستان، انسانی حقوق کے تنظیموں سمیت دیگر افراد سے مطالبہ کیا کہ ان کے بھائی اور کزن کے بازیابی میں کردار ادا کریں۔