جنگی حکمتِ عملی | دسواں باب – جنگ کے عالمگیر قوانین (حصہ سوئم)

298

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا

قسط 20  دسواں باب – جنگ کے عالمگیر قوانین – (حصہ سوئم)

جنگ کے لئے احکامات دینے کا فن
ہم گزشتہ ابواب میں حکمت عملیوں کے نقطہ نگاہ سے جنگی مسائل پر خاصی بحث کرآئے ہیں‘ یہاں ہم جنگی چال پر خیالات کا تبادلہ کریں گے جس کا مطلب ہے جنگ کیلئے احکامات دینا۔ سن زو نے تیرہویں باب میں حکمت عملی اور جنگ کیلئے احکامات کو واضح کرکے انہیں سمجھایا ہے‘ اس دانشمند آدمی کی کتاب ’جنگی فن‘ کے کئی ابواب میں جنگ کے لئے احکامات کا ذکر ہے۔ یہاں ہم اس موضوع کو دوپہلوؤں جیسے کہ پہل کاری Initiativeاور لچک Flexibilityتک محدود رکھتے ہیں۔

پہل کاری:
لوگوں کو پہل کاری کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ جنگ کا احکامات پر بحث کرنے سے قبل یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگر آپ جاری جنگ میں پہل کاری گنوا بیٹھے ہیں تو آپ ایک جگہ جم کر بیٹھ جائیں گے اور دشمن آپ پر پشت سے وار کرنا شروع کردے گا۔ پہل کاری سے متعلق سن زو کا خیال ہے کہ آپ اپنی پسند کے مطابق دشمن کو جنگ کے میدان کی طرف لانے پر مجبور کریں لیکن آپ اس کی پسند کے مطابق جنگ کے میدان کی طرف آنے پر مجبور نہ ہوں‘ فاتح فوج جنگ سے قبل فتح کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور فہمیدہ کمانڈرز کوان اصولوں پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔

سن زو اس بات کی وکالت اور پشت پناہی کرتا ہے کہ دانشمند کمانڈر کو ایسے مقام پر مورچہ بند ہونا چاہئے جہاں سے اس کی شکست ممکن نہ ہو اور وہ دشمن کو شکست دینے کے لئے ہر اچھے موقع کو دشمن سے زبردستی چھین لے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ فاتح فوج جنگ سے قبل ہی فتح کے تمام حالات اپنے ہاتھوں میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتی ہے‘ شکست کھانے والی فوج فتح کیلئے قسمت آزماتی ہے اور ایسی باتیں دھیان میں رکھ کرلڑتی ہے۔ عام طور پر جو جنرل پہلے آکر جنگی میدان کے قریب فوجی کیمپ لگاتا ہے اور دشمن کے آنے کا انتظار کرتا ہے اسے زیادہ سہولتیں میسر آتی ہیں‘ دیر سے آنے والا جنرل تیز رفتاری سے آتا ہے اس کی فوج تھکی ماندی ہوتی ہے اور وہ آتے ہی جنگ میں کود پڑتا ہے‘ جنگ کا تجربہ کار کمانڈر دشمن کو اپنی پسند کے مطابق جنگ کے میدان میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور وہ خود دشمن کی پسند کے مطابق مجبور ہوکرجنگ کے میدان میں نہیں آتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کمانڈر کو چاہئے کہ اپنی مرضی دشمن پر تھونپے‘ اگر آپ ایسے مقام پر مورچہ زن ہوں گے جہاں آپ کو شکست آنا ناممکن ہے تو یوں سمجھنا چاہئے کہ آپ نے پہل کا ری سے کام لیا ہے‘ اس کے بعد آپ دشمن فوج کو ایسے علاقے کی جانب پیش قدمی کرنے کیلئے حالات پیدا کریں گے کہ شکست اس کا مقدر بن جائے گی۔
جب آپ جنگ کے میدان میں مناسب جگہ حاصل کریں گے اور دشمن کو اپنی مرضی کے مطابق گھماتے پھراتے رہیں گے تو پھر سن زو کے خیال کے مطابق دشمن کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرپائیں گے‘ تمام فوجی سائنسدان خواہ ان کا تعلق قدیم دور سے ہویا موجودہ زمانے سے یا ان کا تعلق چین سے ہو یا دیگر ممالک سے‘ سب کو پتہ ہے کہ جنگ طاقت کا ایک مقابلہ ہے اور اس قوت کو دیگر کئی اشکال میں بدلا جاسکتا ہے‘ اگر لڑنے والے دونوں فریقین طاقت کے توازن میں برابر ہیں یا دشمن اگر زیادہ طاقتور ہے تو پھر اگر ہم پہل کاری سے کام لیں گے توتمام تر صورتحال کو اپنے فائدے میں بدل سکتے ہیں‘ اگر آرام طلب دشمن کوتھکا کر بیزار کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم اس من پسند صورتحال کو اپنے بس میں کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے‘ جس کے لئے ہمیں دشمن کی آمد کا انتظار کرنا ہوگا۔

روس اور جاپان کی جنگ:
بیسویں صدی کے آغاز میں روس جاپان جنگ کے دوران جاپان نے روس کے بالٹک بیڑے کو تباہ کردیا تھا‘ جاپان نے سن زو کے اصول ”جب دشمن تھکا ماندہ اور آپ تازہ دم ہوں تو اچانک اس پر حملہ آور ہوں“ پر عمل کرکے فتح حاصل کی۔ یہ حقیقت ہے کہ روس کا بحری بیڑہ بالٹک بڑی غلطی کرتے ہوئے مشرق بعید کی جانب مسلسل سفر کرتا رہا جس کے باعث جہاز کا عملہ تھک کر چور ہوچکا تھا‘ جاپان کی فوج تازہ دم تھی جو روسی فوجی بیڑے کی آمد کے انتظار میں لڑنے کیلئے تیار بیٹھی تھی۔

بحیرہ بالٹک جاپان کے سمندر سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے‘ اس کے علاوہ روس کا یہ بحری جنگی بیڑہ اس حالت میں نہیں تھا کہ مشرق بعید پہنچنے کیلئے برطانیوی زیر تسلط خلیجِ جبر الٹر سے گزر پاتا بلکہ وہ میڈی ٹرنین سمندر میں سوئیز کینال سے گزرا تھا‘ اس کا سبب یہ تھا کہ ان دنوں برطانیہ جاپان کا اتحادی ملک تھا اس کے علاوہ اس نے کیپ آف گڈ ہوپ(Cap of Good Hope)سے ہٹ کر ہزاروں کلومیٹرز کا فاصلہ طے کیا تھا‘ اس کے علاوہ اسے ملا کا کی طرف سے گزرنا پڑا جس کے باعث روسی فوجی عملہ انتہائی تھکا ماندہ اور سست ہوچکا تھا‘ جاپانی فوج نے سن زو کے اصول کے مطابق دھوکہ دینے کے مقصد سے افواہیں پھیلائیں تھیں کہ جاپان زار کے روسی جنگی بحری بیڑے کے ساتھ چین کے جنوب کے سمندر میں مقابلہ کرے گا۔ بالٹک کا بحری بیڑا اس پر اعتبار کر بیٹھا اورسمندری سفر کے پورے وقت میں لڑنے کے لئے تیار رہتا آیا‘ اس لئے روسی جب خلیجِ سوشیما کے پاس پہنچے تو انتہا ئی تھکاوٹ کا شکار ہوچکے تھے‘ جہاں جاپان کی تازہ دم فوج ان کے انتظار میں بیٹھی تھی‘ یہی وجہ ہے کہ جاپان والوں نے روسی جنگی بیڑے کو سخت شکست سے دوچار کیا۔

لچک:
سن زو کی کتاب جنگی فن کے مطابق لچک بھی ایک اہم اصول ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جس طرح پانی ہمیشہ ایک سطح کا نہیں رہتا اسی طرح جنگ کے دوران حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ہیں‘اسی طرح کوئی بھی کمانڈر اپنے دشمن کی جنگی صورتحال کو دیکھتے ہوئے جنگی چال میں ہیر پھیر کرتا رہتا ہے جسے عام طور پر شاید ایک الہامی بات کی طرح سمجھا جاتا جائے‘ اس کا مزید کہنا ہے کہ ”فوج جب نقل و حرکت میں ہوتی ہے تو اس کا انداز چینگ پہاڑی کے خطرناک سانپ کی طرح ہوتا ہے جس پر اگر منہ کی طرف سے حملہ کیا جائے گا تو وہ دم کی طرف سے جوابی حملہ کرے گا اور اگر اس کی دم پر حملہ کیا جائے گا تو جواباً وہ پھن کی طرف سے مارنے کی کوشش کرتا ہے۔“

مختصراً کہ وہ اس بات کی حمایت کرتا ہے کہ ہر کمانڈر کو دشمن کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی فوج میں ضروری تبدیلیاں کرنی چاہئیں‘ یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ میں فوجی ترتیب میں سختی اور مشینی یا روایتی مادیت کی مخالفت کرتا ہے‘ اس کے علاوہ وہ متروک شدہ دقیانوسی جنگی طریقوں کے بھی سخت خلاف تھا اور عام رواجی و خاص قسم کے فوجی یونٹوں کی ترتیب اور ان کے استعمال کا پرزور حامی تھا‘ یہ فوجی سائنسدان دشمنوں کی جنگی صورتحال کے مطابق فوج کے اندر حقیقی اور دھوکہ کی حامل سچی و جھوٹی تبدیلیاں کرنے پرزور دیتا ہے‘ اس کاخیال ہے کہ اس طریقے سے دشمن کو مشکل میں ڈال کر اور پریشان کرکے فتح حاصل کی جاسکتی ہے۔

اپنی قابل عمل تجویزوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سن زو نے پہل کاری کی بات پرزور دیا ہے اور حفظِ ما تقدم کے طور پر بعض باتوں کا اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے‘ وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ”جنگ میں تیز رفتاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے‘ دشمن کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو‘ آپ کی فوج کو ایسے راستوں سے پیش قدمی کرنی چاہئے جس کے لئے دشمن کو وہم وگمان بھی نہ ہو‘ دشمن کے ایسے مقام پر حملہ کریں جہاں اس کے پہریدار موجود نہ ہوں۔“ اس کی بیان کردہ اس قسم کے لچک داری جنگی چال سے دشمن فوج نہ تو خود متحد ہوسکتی ہے اور نہ ہی مختلف یونٹ ایک دوسرے کا سہارابن سکتے ہیں۔

ایک فوجی کمانڈر کو جنگی میدان سے متعلق بالکل واضح ہونا چاہئے اور اسے جنگی احکامات و ہدایات دینے کا فن سیکھنا چاہئے جس کی مدد سے وہ دشمن سے اپنا من پسند مقصد حاصل کرسکتا ہے۔ سن زو لکھتا ہے کہ ”ایک دانشمند کمانڈر وہی ہے جو اپنے نقطہ نظر کے مطابق دشمن سے پیش قدمی کروا کے اسے اپنی من پسند جگہ تک آنے پر مجبورکرے یا وہ دشمن کو دھوکہ دے کر ایسی جگہ پہ لے آئے جو وہ اس سے با آسانی چھڑوا سکتا ہے یا وہ دشمن کو دھوکہ دے کے اسے آگے بڑھنے پر مائل کرے اور مناسب موقع پر اپنی منتخب فوج کے ذریعے اس پر حملہ کر دے۔“

جہاں تک دشمن کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کا سوال ہے تو اس سے متعلق کتاب کے باب ”دھوکہ اور حقیقت“ میں ایک واضح بیان موجود ہے کہ ”آپ دشمن کی جنگی منصوبہ بندی کا جائزہ لیں‘ اس سے آپ کو دشمن کی کمزوریوں کا پتہ چل جائے گا اور اس کے جو مضبوط نکات ہیں اس کا بھی آپ کو اچھی طرح علم ہوجائے گا‘ دشمن کو چڑانے اور ابھارنے کی کوشش کریں تاکہ اس کی پیش قدمی کے طریقے کا پتہ چل سکے‘ اسے دھوکہ دے کر باہر نکلنے پر للچائیں اس سے پتہ چل جائے گا کہ اس کی فوجی ترتیب و تقسیم کس انداز سے کی گئی ہے‘ اس کے علاوہ اس کی اصلی حالت کا بھی پتہ چل جائے گا‘ یہ پتہ لگانے کے لئے بھی حملہ کریں کہ دشمن کی طاقت فوجی کے کس حصے میں ہے اور کس جگہ وہ کمزور ہے۔“
اس کے بعد ہی وہ وہی کچھ حاصل کرسکتا ہے جس سے متعلق سن زو نے کہا ہے کہ ”اگر آپ کو دشمن کی تیاریوں کا پتہ چل جائے گا تو آپ کے حملے کی مزاحمت کی قوت ہی اس میں نہیں ہوگی‘ اگر آپ تیز رفتاری سے پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں تو دشمن آپ کو کہیں بھی پہنچ نہیں پائے گا‘ جب میں اپنی مرضی سے حملہ کروں گا تو دشمن کی اونچی دیواریں اور پر پیچ کھائیاں اس کی کوئی مدد نہیں کرپائیں گی اور مجھ سے لڑنے کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا کیونکہ میں نے حملہ ہی اس کے تحت کیا ہے کہ جس مقام پر وہ مورچہ زن ہوکر بیٹھا ہے وہ جگہ خالی کرکے چلا جائے‘ جب لڑنا چاہوں تو میں فقط زمین پر لکیر کھیچ کر اپنا دفاع کر سکوں اور دشمن مجھ پر اس لئے حملہ نہیں کرپائے گا کہ جس رستے کی جانب وہ جانا چاہتا تھا میں نے اس کا رخ موڑ کر دوسری جانب کردیا ہے۔“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔