شال میں شہداء کے مزارات – عابد جان بلوچ

212

شال میں شہداء کے مزارات

تحریر : عابد جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان ایک زرخیز زمین ہے. ایک روشن خطہ ہے. ایک سرسبز سرزمین ہے. ایک لہلہاتی اور خوشبودار رنگ برنگی پھولوں کا ایک دیار ہے. یہ وہ پھول ہے جو کبھی مُرجھائے نہیں مرجھتا، جس کی خوشبو ابد سے ازل تک ہے۔ یہ وہ پھول ہے جو لہو سے سیراب ہوا ہے. یہ وہ پھول ہے جسکی خوشبو ہر طرف بکھرا ہے. یہ عارضی خوشبو نہیں بلکہ مستقل خوشبو ہے. ایک ایسا خوشبو جس سے غفلت میں پڑے بھی جاگ جاتے ہیں. ایک ایسا خوشبو جو لاشعور بچے جو عمر کے لحاظ سے ابھی تک شعور کے مقام تک نہیں پہنچے ہیں ان کو بھی جذبہ حب الوطنی سے سرشار کرتا ہے.

شہداء نے قربانی کا ایک ایسا دِیا جلایا ہے، جس کی روشنی پوری بلوچستان میں پھیل گئی ہے. اس روشنی کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے. اس روشنی میں بہت سے بھٹکے مسافروں کو راہ مل گئی. اس روشنی کے بدولت اردگرد کے اقوام کو بھی اپنے مستقبل کا راستہ نظر آیا. یہ روشنی کوئی عارضی روشنی نہیں بلکہ یہ ایک ایسا روشنی ہے جو دن میں بھی ہے اور رات کو بھی. سردی میں بھی ہے اور گرمی میں بھی. بھوک افلاس میں بھی ہے اور خوشحالی میں بھی. پُر آشوب حالات میں بھی ہے اور پُرامن وقت میں بھی. اس روشنی کو ان شہداء نے اپنے قومی جذبے سے سرشار ہوکر اپنے لہو سے روشن کیا ہے. وہ شہداء جو بلوچستان کے مستقبل کے روشن چراغ ہیں.

بلوچستان کا ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں بلوچ نرمزار شہداء کا مزار موجود نہ ہو. بلوچستان کے کونے کونے میں اس سرزمین کے وفادار فرزند اپنے جانوں کا نذرانہ دیکر آسودہ خاک وطن ہوئے ہیں. بلوچستان کے ہر کونے میں بلوچ شہداء کے قبرستان موجود ہیں.

آج میں شال (کوئٹہ) کے ان بلوچ شہداء کا ذکر کرتا ہوں جن کے قربانی کے خوشبو ہر طرف بکھیر گئی ہے اور وہ یہاں اپنے وطن کے خاک میں سکون کا نیند سُو رہے ہیں. سب سے پہلے اس قبرستان کا ذکر کرتا چلوں جو شہداء بلوچستان قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے. یہ شال کے جنوب مغرب میں واقع نیو کاہان میں ہے. یہ بلوچ قوم کے ان بہادر شہداء کے قبرستان ہے جو بلوچ قوم کو ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا میں متعارف کروایا. اس قبرستان میں وہ نڈر بھی وطن کے خاک میں سُو رہے ہیں جو اپنے دشمن سے دوبدو جنگ میں اپنی آخری سانس تک وطن کا دفع کرتا رہا… شہید مجید بلوچ. وہ شہداء آسودہ خاک ہیں یہاں جو بزدل دشمن کو ان کے ٹارچرسیلوں میں یہ پیغام دیا کہ یہ قوم موت کو گلے لگا سکتا ہے لیکن غلامی کو نہیں. ان شہداء کے پہلو میں بابائے قوم نواب خیربخش مری اور اس کی شریک حیات بھی آسودہ خاک ہوکر ان شہداء کو کامیاب اور زندہ زندگی گذارنے اور قربانی کے فلسفے پر پورا اترنے پر مبارکبادی دے رہے ہیں. وہاں پر نواب خیربخش مری اپنے سرکل حق توار کو سجایا ہوگا اور اس کے اردگرد شہداء اپنے دھرتی بلوچستان کے بارے میں بحث کرتے ہوں گے.

پھر آتے ہے شال کے وسط میں واقع کلی قمبرانی کے قبرستان میں شہید سرمچار شہید فتح بلوچ (چیئرمین) قابض ریاست سے دوبدو جنگ لڑ کر اپنے وطن پر قربان ہوکر دشمن کے قبضہ گیری کو خاک میں ملا دیا. اسی علاقے میں شہید گزین بلوچ کا بھی مزار واقع ہے جس کو دشمن اپنے ٹارچر سیل میں اذیت دیکر شہید کردیا. بیشک وہ کامیاب ہوا دشمن ناکام ہوا. اس کے زندگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ اپنے سرزمین پر قربان ہوجاؤں. شہید ماما نور احمد قمبرانی جو اپنے عمر کی آخری دنوں تک دشمن قبضہ گیر ریاست کو للکارتا رہا. بابا خیر بخش مری کا ہمسفر اور اس کے حق توار سرکل کا پابند کامریڈ یہاں وطن کے خاک میں سکون کا نیند سُو رہا ہے.

مشرقی بائی پاس کے طرف قدم اٹھاتے ہیں تو وہاں کیو ڈی اے کے قبرستان میں تقریبا 34 شہداء کے قبر مبارک واقع ہے. یہ شہداء ناگاہو ریاستی ایک آپریشن میں شہید ہوگئے ہیں. آپریشن میں مقامی آبادی پر شیلنگ سے بلوچ بچے, نوجوان اور بوڑھے شہید ہوئے. بلوچ سرمچاروں میں یہاں کئی گھنٹوں تک ریاستی فوجیوں سے جنگ لڑتے رہے. آخر کچھ بلوچ سرمچار اپنے آخری دم تک اپنی مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کئے. جن میں شہید.منظور بلوچ, شہید فیصل بلوچ, شہید عالم بلوچ, شہید شعیب بلوچ کے مزارات یہاں واقع ہے. اس کے علاوہ باقی بلوچ عام آبادی پر شیلنگ سے شہید ہونے والوں کے مقدس قبر یہاں موجود ہے. (ان اپنے قارئین کے لیے اس قبر کے ایریا کو شہداء ناگاہو قبرستان کا نام منسوب کرکے پیش کرتا ہوں)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔