جلتا ہوا بلوچستان اور مثبت رپورٹنگ – بالاچ قادر

225

جلتا ہوا بلوچستان اور مثبت رپورٹنگ

 تحریر : بالاچ قادر

دی بلوچستان پوسٹ

اس وقت ملکی ’غیرجانب دار‘ میڈیا کو دیکھو تو برطانوی جوڑے کے دورہ پاکستان کا چرچہ ہے، کچھ اس طرح کی خبریں چل رہی ہیں،
”برطانوی شاہی جوڑے نے فیصل مسجد میں خاموشی سے قران کی تلاوت سنی۔۔۔۔ شاہی جوڑا ائیرپورٹ پہنچ گیا۔۔۔ شہزادی نے لال رنگ کے کپڑے پہنے ہیں۔۔۔۔شہزادہ ولیم نے ایک بچے کی سرپر ہاتھ رکھا“۔ لیکن کوئی گلہ نہیں،کوئی شکوہ نہیں کرو کیونکہ غلام سوچتے ہیں تو اپنی ”غلامانہ“ زہنی مقدار میں، ملکی میڈیا سمیت مملکت خداداد میں بسنے والوں کو یہ خبر تو معلوم ہونی چاہیئے کہ علامہ محمداقبال نے خواب کیوں دیکھا تھا! پھر اسی خواب کو لیکر اُن کے دادا پرداد نے برصغیر میں ایک الگ ملک کا مطالبہ کس سے کیا؟ اور آج انہی کے آنے سے یہ بے وقوف قوم اتنا خوش کیوں ہے۔

خیر کسی کو خود اپنی تاریخ کا زرہ برابر خبر نہ ہو تو ہم کون ہوتے ہیں بات کرنے والے۔۔۔ خدا کرے برطانوی شاہی جوڑا جاتے وقت حکومت پاکستان کے لنگر خانے میں کچھ ڈال کر چلا جائے(آمین)۔

بلوچی میں ایک کہاوت ہے “زمین ھمودا سُچیت کہ آسے پر اِنت” یعنی زمین وہاں جلتا ہے جہاں آگ لگی ہو۔ بلوچستان ستر سالوں سے آگ میں جل رہا ہے، اور ”سب مسلمان بھائی بھائی“والے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے ہیں ویسے آگ لگانے والے بھی تو وہی ہیں نا۔۔

اس آگ کی تپش کتنی زیادہ ہے یہ بلوچستان والوں سے جاکر پوچھو جو جھلس گئے ہیں۔ گذشتہ دنوں بلوچستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے جامعہ بلوچستان میں طالبات کو بلیک میل اور حراساں کرنے کا اسکینڈل سامنے آگیا تھا، جس پر وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی نے یونیورسٹی میں چھاپہ مار کر سی سی ٹی وی کیمروں سے شواہد اکھٹے کیئے، دوسرے ہی دن بلوچستان یونیورسٹی نے ایک سینئیر ملازم کو نوکری سے معطل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ خبر صرف یہاں تک نہ رُکی، مذید تحقیق سے پتہ چلا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹل سمیت مختلف ڈیپارٹمنٹس کے واش رومز میں خفیہ کیمرے لگائے ہوئے تھے جس سے وہ طالبات کو بلیک میل کرتے تھے۔ واقعے کے بعد بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر نے حکومتی اور اپوزیشن بینچز پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو اس واقعے کی انوسٹی گیشن کرے جبکہ دوسری جانب جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر (جو اس بلیک میلنگ اور حراساں کرنے والے گروپ کا ماسٹر مائینڈ ہے) نے میڈیا کو جاری کردہ ایک ویڈیو کلپ میں اداروں سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کی ہے۔

ویسے عجیب ملک ہے جس نے قتل کیا وہی انصاف دلاتا ہے۔ ہم نے تو سنا ہیکہ وائس چانسلرز ایک مختصر دورانیے کیلئے آتے ہیں لیکن یہ مرد مجاہد جس کا نام جاوید اقبال ہے کئی سالوں سے بحیثیت وائس چانسلر جامعہ میں ’احسن‘ کارکردگی سرانجام دیتا چلا آرہا ہے۔ موصوف کے احسن کاکردگیوں میں سے گذشتہ پانچ سالوں کے اندریونیورسٹی میں 700ایف سی اہلکاروں کی تعیناتی، صوبے کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کو ایک فوجی کینٹ میں بدلنا،جامعہ کے مین گیٹ پر طلباء و طالبات کا سیکورٹی کے نام تذلیل، کیمپس پولیٹکس اور طلباء تنظیموں پر پابندی شامل ہیں جبکہ طلباء و طالبات کو واش رومز کے خفیہ کیمروں سے بلیک میل اور حراساں کرنا ان کی بحیثیت ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ نئے کارنامے ہیں۔ اقبال کے شاہینوں سے دستبندانہ التجاء ہیکہ خیبرپاس کے بعد برطانوی شاہی جوڑے کو یہاں بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملاتے جائیں تاکہ وہ انکی احسن کارکردگیوں پر داد دیئے بغیر نہ رہ سکیں اور شاید ہوسکے تو برطانیہ جاکر اس کانام نوبل انعام لسٹ میں ڈالنے کی بھی سفارش کریں۔

کئی دنوں سے دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں طلباء تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات کے احتجاج و مظاہرے جاری ہیں، جامعہ بلوچستان میں بھی بندوق کے سائے تلے زندہ طلباء و طالبات خوف کی زنجیریں توڑتے ہوئے سراپا احتجاج پر نکل آئے ہیں۔ ایک ہفتہ گذرنے کے باجود اب تک اس اسکینڈل میں ملوث لوگوں کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے اور نہ ہی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس طرح کی واقعات پیش آجانے کے بعد گورنر بلوچستان فوری طور پر وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹا دیتے لیکن شایدگورنر صاحب کو بھی وائس چانسلر کی احسن کارناموں کا اعتراف ہے اس لئے اب تک ان کو عہدے سے معطل نہیں کیا گیا۔

بلوچ قوم جو ہزاروں سال کی ایک زندہ تہذیب رکھتی ہے اور بلوچ معاشرے میں خواتین کا ہمیشہ ایک اعلیٰ مقام رہا ہے، خواتین کی عزت کیلئے اس قوم نے کئی جنگیں لڑی گئیں،نہ صرف بلوچ بلکہ اس خطے میں رہنے والے پشتون بھی اس معاملے میں آگے ہیں لیکن آج افسوس کا مقام ہیکہ باہر سے آیا ہوا ایک وائس چانسلر جس کو نہ ہمارے ثقافتی اقدار معلوم ہیں اور نہ ہی یہاں رہنے والوں کی اخلاقی،سماجی اور سیاسی اقتدار کا خیال ہے، تمام تر چیزوں کو روندتے ہوئے اس طرح کی حرکتیں کررہا ہے اور گورنر سمیت دیگر حکام خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔

جہاں ایک طرف صوبہ بلوچستان کی بچیاں چیخ چیخ کر تعلیمی اداروں میں ہونے والی جنسی حراسمنٹ اور بلیک میلنگ کے خلاف احتجاج پر ہیں تو وہاں شہر اقتدار والے موسم کی موجوں میں رقص کررہے ہیں اور مملکت خداداد کا غیرجانب دار میڈیا ہمیشہ کی طرح ملکی مفاد کی خاطر ’مثبت رپورٹنگ‘ سرانجام دیتے ہوئے برطانوی شاہی جوڑے کو کوریج دے رہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔