کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

130

بلوچستان میں میڈیا کے پاس ان واقعات کی رپورٹنگ کا بظاہر اختیار نہ ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ریاست اس سنگین مسئلے کے حل کا سیاسی عزم نہیں رکھتی ہے – ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان

خوف انسانی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو کچل دیتا ہے اور انسان کو منافقت کی راہ پر لے جاتا ہے، سچ کو ہمیشہ منظر عالم پر لایا جائے تاکہ اہل بصارت اور انسان دوست اس سے واقف ہوکر سماج کی اصلاح کرسکیں۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیمپ میں موجود وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

کوئٹہ پریس کلب سے سامنے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو 3693 دن مکمل ہوگئے۔ حب چوکی سے دیدگ بلوچ اور سندھ کے شہر حیدر آباد سے نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر محمد رمضان، نائب صدر شبانہ اور دیگر افراد نے کیمپ کا دور کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

بلوچستان کے علاقے مشکے سے جبری طور پر لاپتہ لیاقت علی کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور ان کے گمشدگی کی تفصیلات وی بی ایم پی کے پاس جمع کیئے۔

لواحقین کے مطابق لیاقت علی ولد رئیس واسطی کو 10 نومبر 2018 کو مشکے کے علاقے تنک کور میں فورسز کی چیک پوسٹ پر پاکستانی خفیہ ادارے ایم آئی کے اہلکاروں نے ان وقت حراست میں لیا جب وہ اپنے بیوی اور بچوں کے ہمراہ لوکل گاڑی میں اپنے گھر آرہے تھے۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ لیاقت علی کے بیوی بچوں کو لوکل گاڑی میں بٹھاکر گھر جانے کو کہا گیا اور اہلکار لیاقت علی کو اپنے ہمراہ لے گئے جبکہ اہلکاروں نے اپنا تعارف ایم آئی کے اہلکاروں کے طور پر کیا تھا۔

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ چونکہ دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ہر انسان کے عزت نفس اور احترام انسانوں کے مساوی اور ناقابل انتقال کو تسلیم کیا جائے، انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی خلاف ورزی کے ایسے وحشیانہ نتائج نکلے ہیں کہ ان سے انسانی ضمیر لرز اٹھتا ہے اور عام انسانوں کی اعلیٰ ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ بلوچ اسیران کے حراستی قتل اور بلوچ نسل کشی میں ملوث ریاست پاکستان کی رکنیت فوری طور پر معطل کرکے عالمی امن و سلامتی کو تہہ و بالا کرنے اور مذہبی انتہاء پسندی کے خالق پاکستان کو دہشت گرد ڈکلیئر کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے طور و عرض سے برآمد ہونے والی اسیران کی لاشیں نا دانستہ یا اتفاقیہ نہیں بلکہ ایک انتہائی مضبوط اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جانے والی کاروائیاں ہے جبکہ ان ریاستی کاروائیوں میں پاکستانی خفیہ ادارے، نیم فوجی ادارے، پاکستان کی عسکری و سیاسی قوتیں اور پاکستانی عدلیہ بلواسطہ ملوث ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے 2018 میں حقوق انسانی کے حوالے سے متعلق اپنی رپورٹ میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا دردناک سلسلہ 2018 میں بھی بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رہا۔

رپورٹ میں بلوچ ہیومن رائٹس کمیشن اور بلوچستان انسانی حقوق کونسل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2018 میں جبری گمشدگیوں کی کم از کم 541 جزوی اطلاعات سامنے آئیں۔