بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بابت بی این ایم نے جون کی رپورٹ جاری کردی

226

پاکستانی فوج نے 70 فوجی آپریشن کئے۔ 81 افراد حراست بعد لاپتہ، 24 لاشیں ملیں، 150 گھروں میں لوٹ مارکی گئی۔ بلوچ نیشنل موومنٹ انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ نے کہا کہ ریاست پاکستان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اپنے جنگی جرائم کو چھپائے۔ ان کوششوں کے باوجود پاکستانی بربریت عیاں ہوچکا ہے اور پوری دنیا اس امر سے آگاہ ہوچکا ہے کہ دیگر مظالم کے علاوہ فورسز ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کولاپتہ کررہے ہیں۔ اپنی بربریت کودنیا کی نظروں سے چھپانے میں ناکامی کے بعد پاکستان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے لاپتہ (فورسزکے زیر حراست) افراد کی تعداد کو متنازعہ بنایا جائے۔ اس کام میں بلوچستان کی کٹھ پتلی صوبائی حکومت اور لاپتہ کی بازیابی کے لئے بنائی نام نہاد عدالتی کمیشن پیش پیش ہے۔ گزشتہ دنوں کٹھ پتلی صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انہیں 110 افراد کی لسٹ موصول ہوئی ہے جبکہ ان کے بقول دو سو بازیاب ہوگئے ہیں۔ عجیب تضاد بیانی ہے کہ اختر مینگل کی وفاداری خریدنے کے لئے ان کی سرکار کا معاہدہ پانچ ہزار افراد کی بازیابی کا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حقائق کے آئینے میں دیکھے تو صرف رواں سال جنوری میں 78 فوجی آپریشنوں میں 108 افراد لاپتہ کئے گئے۔ فروری میں 90 آپریشنوں میں 72 افراد لاپتہ کئے گئے، مارچ کے مہینے میں 40 سے زائد فوجی آپریشنوں میں 72 افراد لاپتہ کئے گئے، اپریل میں 40 آپریشنوں میں 87 افراد لاپتہ کئے گئے، مئی میں 25 آپریشنوں میں 49 افراد لاپتہ کئے گئے اور جون کے مہینے میں 70 آپریشنوں میں 81 افراد لاپتہ کئے گئے ہیں۔ جبکہ مذکورہ اعداد و شمار میں دیگر نقصانات شامل نہیں ہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ ہمارے اعداد وشمار کے علاوہ طاقت کے نشے میں دھت پاکستانی آفیشلز بھی کئی مرتبہ خود میڈیا کے سامنے جنگی جرائم کا اعتراف کرچکے ہیں۔ بلوچ نسل کشی کے لئے ترتیب دیئے گئے نیشنل ایکشن پلان اور ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کے تحت خود سرکاری بیانیہ موجود ہے کہ مقبوضہ بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اگست 2016 میں اعلان کیا کہ 2015 اور 2016 کے دوران 2,825 آپریشنوں میں 13,575 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے دسمبر 2015 کو مقبوضہ بلوچستان کے ہوم سیکریٹری اکبر حسین درانی نے اعتراف کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نو ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 2004 میں اس وقت کے پاکستان کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے چار ہزار بلوچوں کو حراست میں لینے کا اعتراف کیا۔ تاریخ کا جبر اورعالمی اداروں کی خاموشی کا نتیجہ دیکھئے کہ ان میں ایک شخص کو بھی پاکستان نے اپنے کسی بھی عدالت میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی کسی عالمی ادارے نے پاکستان پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نہ صرف اپنے اعترافات سے مکر گیا بلکہ پاکستانی بربریت میں روز اضافہ ہوتا چلا گیا اور جو آج تک نئی بلندیوں کے ساتھ جاری ہے۔

دلمراد بلوچ نے کہا کہ جس ملک کے سابق صدر اور سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے شریک چیئرمین کے روایتی انٹریو کو نشریات کے دوران روک دیا جاتا ہے وہاں مظلوم و محکوم قوموں کی صورت حال کیا ہوگی، اس کا تصورکرنا ہی مشکل ہے۔مہذب ممالک کے لوگوں کے لئے حقیقت میں آج بلوچستان میں پاکستان کی بربریت کے داستان افسانوی اورفلمی معلوم ہوتے ہیں لیکن اتنے تلخ اور سنگین حقا ئق کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے بلوچ قوم میڈیا سے محروم ہے۔ نام نہاد آزادپاکستانی میڈیافوج کی رکھیل بن چکاہے۔ آج پاکستانی صحافت سے وابستہ چند ایک زندہ ضمیر صحافی بھی اعتراف کررہے ہیں کہ پاکستان میں آزاد میڈیا نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔ پاکستانی میڈیا دو کاموں میں مصروف ہے۔ پہلا یہ کہ پاکستانی فوجی بیانیے کی تشہیر ودفاع کیا جائے اور دوسرا یہ کہ محکوم و مظلوم قومیتوں کے خلا ف غلیظ پروپیگنڈہ کیا جائے۔ اس امر پر کوئی شک نہیں کہ پاکستانی میڈیا بلوچ کے خلاف جنگی جرائم میں فوج و اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی اداروں اور کٹھ پتلیوں کی کوشش ہے کہ کسی بھی قیمت پر بلوچ قومی مسئلے اور اس سے جڑی حقائق کو مسخ کیا جائے، فوجی آپریشنوں، فوج کے ہاتھوں لاپتہ افراد کی تعداد اور فوجی اذیت گاہوں میں شہدا کی تعداد کو کم سے کم پیش کرکے اسے متنازعہ بنایا جائے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ گوکہ عالمی ادارے اپنے بنیادی فرائض سے اب تک انصاف کرنے میں ناکام ہیں لیکن بلوچ نیشنل موومنٹ ان اداروں تک آواز پہنچاتا رہے گا اور لاپتہ افراد سمیت پاکستان کے تمام جنگی جرائم پر بلوچ نیشنل موومنٹ ہر مہینے اپنا مستند رپورٹ شائع کرتا رہے گا۔ اس رپورٹ میں وہ تمام حقائق اورواقعات یک بہ یک شامل ہوتے ہیں جو پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کی جانب سے بلوچستان میں رونما ہورہے ہیں۔

نمبر1۔ بلوچستان میں مکمل طورپر انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، پورے مقبوضہ بلوچستان کو پاکستان نے فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے۔

نمبر2۔ ہر دوتین کلومیٹر پر فوجی چوکی قائم ہے، دیہی علاقوں کے اکثر سکول، ہسپتال سمیت تمام سرکاری عمارت اور بعض آزادی پسند رہنماؤں کے گھر فوجی چوکیوں میں تبدیل کئے جاچکے ہیں۔ ان چوکیوں میں سیاسی کارکنوں سمیت عام لوگوں کی تذلیل، تلاشی تو معمول ہے اس کے ساتھ یہاں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا جاتا ہے۔

نمبر3۔ پاکستانی فوج، خفیہ ادارے دنیا کے کسی بھی قانون اور اخلاقیات کے پابند نہیں ہیں، آپریشنوں اور چھاپوں کے دوران لوگوں کو لاپتہ کرنا ان چھاپوں اور آپریشنوں کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔

نمبر4۔ بلوچستان کے طول وعرض میں روزانہ کی بنیاد پرفوجی آپریشن جاری ہیں۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن کا مطلب ہی تباہی ہوتاہے۔ فوج دوران آپریشن اکثر گھروں میں سے قیمتی اشیاء کو لوٹنے کے بعد گھروں کو نذرآتش کرتا ہے۔ خواتین اور بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے، اکثر مرد حضرات کو کیمپ منتقل کیا جاتا ہے تشدد کے بعد کچھ لوگوں کو رہا کیا جاتا ہے۔ باقی لوگوں کو آزادی پسند ہونے، آزادی پسندوں کے سہولت کار ہونے یا کسی بھی الزام کی بنیاد پر لاپتہ کیا جاتا ہے۔

نمبر5۔ پاکستان اپنی جنگی جرائم اور بربریت کو چھپانے کے لئے بلوچستان میں زیادہ متاثر ہ علاقوں میں کئی سالوں سے انٹرنیٹ سروس معطل کرچکا ہے۔ صرف چند ایک شہروں میں یہ سہولت موجود ہے مگر اس پر بھی کڑی نگرانی ہے۔ تمام صارفین کی فون و دیگر سیلولر ڈیوائس ٹریک کئے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اکثر علاقوں میں ہر فرد(خواتین وحضرات) کی ذاتی موبائل نمبر اس علاقے کے فوجی افسر کے پاس ہوتا ہے اور وہ فوقتاً فوقتاً ہر فرد کو فون کرتا ہے اور کسی بھی جنگی جرم کی خبر افشا کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکی دیتا ہے۔ درجہ بالا وجوہات کی بناء پر دوردراز کے علاقوں سے فوج کی بربریت کی خبریں کماحقہ سامنے نہیں آتے ہیں۔

نمبر6۔ فوج یا خفیہ ادارے جب کسی شخص کو لاپتہ کرتے ہیں تو اس کے اہلخانہ پر شدید دباؤ ہوتا ہے کہ آواز اٹھائی تو نہ صرف زیرحراست شخص کو قتل کیا جائے گا بلکہ خاندان کے باقی افراد کو بھی ماردیا جائے گا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین پر ریاستی فورسز اورخفیہ ایجنسیوں کا شدید دباؤ ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے زبان کھولی تو ان کے عزیزوں کو ماردیا جائیگا۔ یہ دھمکیاں فون پریا براہ راست دی جاتی ہیں۔

نمبر7۔ اگر ایف آئی آر کے لئے پولیس تھانے میں رپورٹ کی جائے تو پولیس کیس لینے سے انکار کرتا ہے اوراگر ہزار میں سے ایک فرد کی ایف آئی آر درج کی جائے تواس سے اس شخص کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری ایک طاقتور جسٹس مانے جاتے تھے مگر لاپتہ افراد کے بارے میں وہ بھی بے بس دکھائی دیئے۔ ان سے ایک بھی بلوچ کو انصاف نہیں ملا۔ 11اپریل 2011 کو صحافی محمد خان مری کو اس کے بھائی محمد نبی مری اور ایک دوست مہران کیا زئی کو فرنٹیر کور (ایف سی) نے کوئٹہ سے اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ ان کی بازیابی کیلئے سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے ایک پٹیشن دائر کی گئی جس کی سربراہی چیف جسٹس افتخار چوہدری خود کر رہے تھے۔ ڈی آئی جی ہادی شکیل اور ایک ٹریفک سارجنٹ نے سی سی فوٹیج لیکر عدالت کو بطور ثبوت پیش کی کہ ایف سی انہیں پکڑ کر اپنی گاڑیوں پر بٹھا کر لے جا رہا ہے۔ اس ثبوت کی بنا پر سپریم کورٹ نے آئی جی ایف سی عبیداللہ خٹک کو سمن جاری کیا کہ اگلی سماعت میں مغویاں کو عدالت میں پیش کی جائے۔ لیکن اس سماعت سے پہلے 28 مئی 2011 کو ان کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ ان کی جسم پر شدید تشدد اور گلے میں رسی کے نشان تھے۔ عدالتیں بھی ریاست اورفوج کی پابند ہیں۔ لہٰذا ان سے بلوچ کب کا مایوس ہوچکا ہے۔

نمبر8۔ جب بھی کوئی لاپتہ فرد بازیاب ہوتا ہے تو وہ شدید جسمانی، ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کے سبب بات کرنے کے قابل نہیں رہتا اوروہ اس دھمکی کے ساتھ رہا کیا جاتا ہے کہ زبان کھولنے کی صورت میں اسے دوبار ہ اٹھایا اور قتل کیا جائے گا۔ ایسی مثالوں کی کوئی کمی نہیں کہ دوبارہ اٹھانے کی بعد لوگوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انفارمیشن سیکریٹری نے کہا کہ بلوچوں کی نسل کشی میں پاکستان تمام حدود پار کرچکا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا اولین فرض بنتا ہے کہ وہ ان مظالم کا نوٹس لیں تاکہ بلوچستان میں جاری انسانی المیے کا تدارک کاجاسکے۔

ماہ جون کی تفصیلی رپورٹ درج ذیل ہے:

1 جون
۔۔۔کیچ کے علاقے دشت میں دوران آپریشن قابض فوج نے بلوچ فرزند حنیف بلوچ ولد دلمراد سکنہ درچکو دشت کو حراست میں لے کر کیمپ منتقل کیا گیا تھا جہاں انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد میں نیم زندہ حالت میں چھوڑدیا گیا تھا۔

۔۔۔ آواران، کولواہ کے مختلف علاقوں میں قابض فوج کا آپریشن جاری۔اس آپریشن میں تیس گاڑیوں کا فوجی قافلہ شامل ہے،داخلی راستوں کو مکمل سیل کرنے کے بعدفوج نے رودکان،آشال،بلور،سگک کے آبادیوں پر دھاوا بول آپریشن شروع کردیا ہے۔ فورسز نے گھروں میں تلاشی کے دوران لوٹ مار کی،خواتین وبچوں سخت تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔تمام علاقے و آبادی فوجی محاصرے میں ہیں،واضح رہے کہ گزشتہ روز انہی علاقوں پر پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں اور جنگی جٹ جہازوں نے پروازیں کیں تھیں۔

۔۔۔ خاران سے پاکستانی فورسز نے دو افرادفیاض جمالی اور شبیر کوحراست میں لے کرنامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
فورسز نے خاران کے مختلف علاقوں میں ناکہ بندی کرکے گھروں پر چھاپے مارے اور فٹ بال کھلاڑی فیاض جمالی کو اس کو گھر سے حراست میں لیا گیا جبکہ شبیرجو لکڑی فروخت کرنے کے پیشے سے وابستہ ہے کو درزی کی دکان سے حراست میں لیا گیا جس کو بعد میں رہا کردیا گیا۔

2 جون
۔۔۔کوئٹہ اور ضلع چاغی کے علاقے دالبندین سے دو افراد کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں ہیں۔کوئٹہ میں کلی خلی تھانہ شالکوٹ کے علاقے سے 25 سالہ نوجوان کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ لاش پر گولیوں کے نشانات ہیں اور لاش کو بی ایم سی منتقل کردیا گیا ہے تاہم مذکورہ شخص کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے۔

دالبندین سے محمد اعظم حسنی کی لاش برآمد ہوئی جنہیں دو ماہ قبل اغواء کیا گیا تھا اور ان کے اغواء کی ایف آئی آر ان کے سسر اور دیگر دو افراد پر درج کیا گیا تھا۔

۔۔۔ قلات میں قابض فوج نے چھاپہ مار کر ایک نوجوان ماجد مینگل ولد داد محمد کوحراست میں لے کرلاپتہ کردیا۔

۔۔۔کیچ کے علاقے مند میں قابض فوج کا آپریشن تین افراد عباس ولد رفیق اور شازیب ولد ماسٹر جان محمد کوحراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔ عباس دونوں پیروں سے معذور ہے اورشاہ زیب بی ایم سی کا طالب علم ہے اور عید کی چھٹیاں منانے گھر آیا ہوا تھا۔دوران آپریشن فورسز نے مرحوم محمدکریم بلوچ کے گھر کے دروازے اکھاڑے اورگھر میں موجود تمام اشیاء لوٹ لئے بھی ساتھ لے گئے۔

۔۔۔کیچ کے علاقے مند گوبرد میں فورسز نے سرچ آپریشن کے دوران گھر گھر تلاشی لی اور ایک شخص مسعود ولد پیر محمد کو حراست بعد اپنے ساتھ لے گئے۔

۔۔۔کولواہ کے مختلف علاقوں میں فوجی گشت آبادیوں کے محاصرے کا سلسلہ دو روز سے جاری ہے۔آج فورسز نے کولواہ مادگِ کور و گرد نواع میں آبادیوں کا محاصرہ کر کے گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو حراساں کیا۔

۔۔۔ آواران کے علاقے مشکے پاکستانی زمینی فوج کی آمد کا سلسلہ جاری، آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے آبائی گاؤں میہی میں فوج کی بڑی تعداد تعینات کر دی گئی ہے، اسکے علاوہ گورکھائی میں بھی فوج کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔خدشہ ہے کہ جاری آپریشن میں تیزی لاتے ہوئے گرد نواح کے علاقوں میں آپریشن کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

۔۔۔آواران کے علاقے مشکئے سے قابض فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ضمیر ولد اللہ بخش اور دولت ولد داد محمد سکیورٹی فورسز کے حراست سے بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گئے۔
قابض فورسز نے انہیں 23 جولائی 2018 کو مشکے النگی سے دیگر تین بلوچ خواتین، بی بی نورملک زوجہ اللہ بخش،حسینہ بی بی بنت اللہ بخش اورثمینہ بی بی بنت اللہ بخش کے ساتھ گرفتار کرتے ہوئے وادی مشکے کے آرمی منتقل کردیا تھا۔ آج ضمیر ولد اللہ بخش اور دولت ولد داد محمد بازیاب ہوئے جبکہ بی بی نورملک،حسینہ بی بی اور ثمینہ تاحال پاکستانی فوج کی حراست میں ہیں۔

3 جون
۔۔۔ کوئٹہ کچلاک کے جلیوگیر کے قریب ایک شخص کی لاش ملی ہے جس کو سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیاجس کی شناخت نہ ہوسکی۔

۔۔۔ گذشتہ روز تربت اور شہرگ سے لاپتہ ہونے والے شبیر ولد محمد اور عباس ولد رفیق بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔

۔۔۔۔گوادر کے علاقے نیو ٹاؤن سے قابض فورسز نے بشیر ولد سپاہ نامی شخص کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے جبکہ خاران سے قابض فورسز نے ہندو محلہ اسکول گراؤنڈ کے قریب سے نوجوان سید نور حسن جیلانی کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

4 جون

۔۔۔ خضدار کے تحصیل وڈھ کے علاقے باخیلی سے پانچ روز قبل قابض فورسز نے دولت زئی قبیلے کے سات افراد کو گذشتہ جمعے کے روز فجر کی نماز کے بعد گھروں پر چھاپہ مارکر حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔

۔۔۔ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے قابض فوج نے پانچ افرادشناخت شکل ولد ھیوت بگٹی،نیاز علی ولد لیمو بگٹی،حیدر ولد میٹا بگٹی،ولی داد بگٹی،کمدو بگٹی ولد ولی داد بگٹی کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔

۔۔۔اورماڑہ سے دو ماہ قبل قابض فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے باہوٹ ولد قادر بخش سکنہ نال کور سوڑ اور سردو ولد ابراہیم سکنہ جھاؤ اورماڑہ سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
5 جون

۔۔۔کیچ قابض فورسز نے بالگتر،دمب،تجابان،ہوشاپ میں آبادیوں پر دھاوا بول کر گزشتہ روز گھروں میں لوٹ مار کی،فورسز نے دوران آپریشن خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ متعدد گھروں کو نذر آتش کر دیا ہے۔

۔۔۔کیچ کے علاقے زامران میں 19 مارچ2019 کو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے چار افراد اکبر ولد خدا بخش، اسلام ولد اکبر، عبدالخالق اور آدم بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔

6 جون
۔۔۔ گذشتہ سال 24 دسمبر کوقابض فورسز کے ہاتھوں مشکے سے لاپتہ ہونے والے محمد حسن ولد عرضی بازیاب ہوگئے-

۔۔۔ کراچی سے تین مال قبل یکم مارچ کو لاپتہ ہونے دو بھائی نسیم اور شہ مرید ولد نذیر بلوچ بازیاب ہوگئے ہیں –

۔۔۔گوادر کے علاقے کلانچ میں قابض فوج نے چھاپہ مارکر بشیر سکنہ شم نلینٹ کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔

۔۔تربت سے قابض فوج کے ہاتھوں 26اپریل 2019کو حراست بعد لاپتہ ہونے والے عزیر ولد اسماعیل سکنہ تمپ سرنکن حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا ہے جبکہ عزیر کے ساتھ حراست بعد لاپتہ ہونے چاکر ولد عبدالمجید تاحال لاپتہ ہیں۔

۔۔۔بلوچستان کے ضلع مستونگ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ ایک نوجوان جانبحق اور اس کا ساتھی زخمی ہوا ہے۔
فائرنگ کا واقعہ مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں پیش آیا جہاں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی فائنرگ سے سردار زادہ وقار احمد محمد شہی اور سعادت نامی شخص شدید زخمی ہوگئے جنہیں ہسپتال منتقل کردیا جبکہ بعد میں وقار احمد محمد شہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جانبحق ہوگئے۔

۔۔۔جھاومیں فضائی آپریشن ،مزید فورسز کے دستے پہنچ گئے،جبکہ کئی ہیلی کاپٹربھی کوہڑو میں پہنچ گئے۔
آواران کے تحصیل جھاومیں گزشتہ روز سے ایک بار پر سیکورٹی فورسز کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اور دوسری جانب جھاو کے پہاڑی علاقے سورگر میں ہیلی کاپٹروں کی فضائی گشت۔
اسی طرح گزشتہ روز کئی فوجی گن شپ ہیلی کاپٹروں نے آرمی کیمپ کوہڑو میں لینڈنگ کی ہے۔اور یہ ہیلی کاپٹرز وقفے وقفے سے پہاڑی سلسلوں میں فضائی گشت کر رہے ہیں اور دھماکوں کی بھی آواز یں سنائی دے رہی ہیں۔

۔۔۔ کیچ سے تحصیل تمپ کے علاقے دازن سے قابض فورسز نے دو افراد کوسرچ آپریشن کے دوران صبح دس بجے بیبگر ولد امان اور سلام ولد پیربخش کوحراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

۔۔۔پنجگور کے علاقے پروم میں فائرنگ سے عبید نامی شخص جانبحق ہوگیاقتل کے محرکات معلوم نہ ہوسکے۔

8 جون
۔۔۔گوادرسے قابض فورسز نے پانچ طلباء نجیب نور، رضوان راہی، عادل بلوچ نعیم دیدگ اور بلال بلوچ کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔

۔۔۔کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے آگ لگا دیا۔کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاجی کیمپ ماما قدیر کی سربراہی میں گذشتہ ایک دہائی سے پرامن انداز میں جاری ہے۔

۔۔۔کیچ کے علاقے مند کہنک قابض فوج نے سے چار افرادآدینہ ولد محمد بخش،مصدق ولد محمد بخش،شعیب ولد لال محمد،اور حبیب ولد نصیر کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔

9 جون
۔۔۔دشت و سامی سے فورسزنے 6افراد کو حراست میں لیکرجبری طور پر لاپتہ کردیا۔
۔۔۔ کیچ کے علاقے سامی،عومری کہن میں قابض فورسز نے آپریشن کرکے دو بھائیوں سمیت چار افراد حلیم ولد فضل، صغیر ولد فضل، رحمت اللہ ولد عبدالرحمان اور مسلم ولد عبدالرسول کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔

۔۔ ضلع کیچ کے علاقے دشت کلیرو ڈمب بازار میں قابض فوج نے آپریشن کرکے دو افراد سخی بخش ولد واحد بخش اورشبیر ولد خان محمدکو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔

۔۔۔آواران اورکولواہ میں زمینی و فضائی آپریشن جاری،گردو نواح کی آبادیاں محصور ہیں۔ اتوارسے پاکستان کی زمینی و فضائی افواج نے کیچ کے علاقے کولواہ اورآواران کے پہاڑی سلسلوں میں زمنی و فضائی آپریشن کا آغازکیا۔

۔۔۔ خضدار سے بی ایس او (مینگل) کراچی زون کے آرگنائزر ذاکر بلوچ کو خضدار سے قابض فورسزنے اس وقت لاپتہ کیا جب وہ عید کے چھٹیوں پر خضدار آئے تھے۔

۔۔۔دو دن قبل مند کے علاقے کہنک سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے مصدق ولد محمد بخش، شعیب ولد لال محمد،حبیب ولد مستری نصیر حراست بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔

10 جون
۔۔۔پنجگور سے قابض فوج نے افراد امین ولد خدا بخش اور فرید ولد رشید کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
۔۔۔ آزادی پسندبلوچ سرمچاردودا بلوچ عرف مزار بیماری کے سبب شہید ہوگئے جن کا تعلق مزاحمتی تنظیم بی آراے سے تھا۔
۔۔۔گوادر کے تحصیل پسنی سے قابض فورسز نے دو افرادسراج بلوچ اور مراد بلوچ کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے۔

11 جون
۔۔۔قابض فورسز نے دشت سے شہید دودا بلوچ کے رشتہ داروں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی کے سرمچار دودا بلوچ کے دو چاچا ظہور فیصل اور رحمت سمیت متعدد رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا ہے۔

۔۔۔گوادر سے قابض فوج کے ہاتھوں 30مئی 2019کو حراست بعد لاپتہ ہونے والے شے حق ولد نور بخش حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔

12 جون

۔۔۔کوئٹہ کے علاقے قائد آباد تھانے کی حدود سے ایک لاش برآمد ہوئی ہے جس کو شناخت کیلئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

۔۔۔ کولواہ کے مختلف علاقوں چمبراورگردونواح میں پاکستانی فوج نے آبادی پر دھاوا بول کر گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ دو افراد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے۔
فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والے ایک شخص کی شناخت نبی بخش کے نام سے ہوئی ہے جبکہ دوسرے شخص کی شناخت تا حال نہ ہو سکی۔

13 جون
۔۔۔بولان و گرد نواع پاکستانی فوج کا زمینی و فضائی آپریشن،صبح سے پاکستانی فورسز نے بولان و آس پاس کے علاقوں میں بڑے پیمانے کی آپریشن شروع کی ہے۔
بولان کے علاقوں بزگر، درک اور شہرگ کے علاوہ ہرنائی کے مختلف مقامات پہ بھی آپریشن جاری ہے۔

14 جون
۔۔۔بولان کے مختلف علاقوں میں زمینی و فضائی فوجی آپریشن جاری ہے جس میں تین افراد کے فورسز کے ہاتھوں قتل کے علاوہ متعدد کی گرفتاربولان و ہرنائی کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز کی زمینی و فضائی آپریشن آج دوسرے روز بھی جاری ہے۔

بولان و ہرنائی کے آس پاس کے علاقوں مارگٹ، بزگر،چھلڑی، سارو سانگان، جھالڑی کے علاوہ ہرنائی، شہرگ، یخو لاکی، لکڑ،غربک میں جنگی ہیلی کاپٹروں نے متعدد مقامات پہ اندھا دھند شیلنگ بھی کی ہے۔ گذشتہ روز دوران آپریشن متعدد لوگوں کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا تھا جبکہ تین افراد کو فورسز کی جانب سے قتل کرنے کی اطلاع موصول ہوئی تاہم قتل کئے گئے افراد کی شناخت تاحال نہ ہوسکی۔15 جون

۔۔۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے بہاولپور سے بلوچ طالب علم کو جبری طور پر لاپتہ کردیا گیاہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، پنجاب سے بلوچستان کے علاقے تربت سے تعلق رکھنے والے بلوچ طالب یاسین بشام کو جبری طور لاپتہ کردیا گیا ہے۔

۔۔۔ تمپ کے علاقے کوھاڈ میں گزشتہ شپ پاکستانی فورسز نے داد اللہ ولد گل محمد کے گھر پر دھاوا بول کر گھر میں موجود تمام قیمتی اشیاء کا صفایا کرنے کے ساتھ خواتین وبچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔فورسز نے ایک شخص ثنااللہ کو بھی حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے۔

۔۔۔بولان و دشت میں فوجی آپریشن جاری ہے، تمام علاقوں میں فورسز کی ناکہ بندی سے آمدو رفت بند، لوگ اپنے گھروں میں محصو ر ہیں جبکہ دشت میں آپریشن باعث پہاڑی سلسلوں میں دھواں کے مرغولے اٹھتے دکھائی دئیے، بولان کے علاقے لاکی میں پاکستانی فو ج کی جنگی طیاروں نے بمبارمنٹ کی ہے۔
اسی طرح ضلع کیچ کے علاقے دشت کے پہاڑی سلسلو ں میں بھی بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے۔
ہفتہ کو علی الصبح پاکستانی فوج نے دشت اور مندکے درمیان واقع پہاڑی سلسلوں ننگارو، بانسر، کل کار، چرپان اور دوسرے علاقوں میں آپریشن کا آغاز کردیا۔

۔۔۔پاکستانی فوج نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آٹھ افراد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
جن میں چار کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے علاقے پسنی سے چارافرادوحید ولد قادر بخش، دولت ولد قادر بخش گوہر بلوچ اور حسن اورڈیرہ بگٹی سے بہازر ولد رکھیا بگٹی سمیت چارافرادحراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔یہ لوگ زرعات کے پیشے سے وابستہ ہیں جو زرعی زمینوں پر کام کر رہے تھے جنہیں پاکستانی فوج نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔

۔۔۔کیچ کے علاقے بلیدہ سے قابض فوج نے ایک شخص شاہ مراد ولد دلمرادکو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔

۔۔ خضدار زیرو پوائنٹ سے قابض فوج ایک شخص حلیم مینگل ولد نیک محمد سکنہ خضدار کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔

16 جون
قلات میں مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔

17 جون
۔۔۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے علاقے مونڈی میں پاکستانی فوج نے آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے کئی گھروں کی تلاشی لینے بعد گھروں سے قیمتی سامانوں کا صفایاکردیا ہے۔

۔۔۔ پنجگور کے علاقے گچک میں قابض فوج نے مختلف علاقوں چِب، جوانتاک اور لوھڑی کو گھیرے میں لے کر آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے گھروں سے قیمتی سامانوں کا صفایا کردیا،لوگوں پر شدید کیا۔

۔۔۔آواران میں قابض فوج نے محکمہ لیویزکے ایک اہلکارانور ولد لعل جان سکنہ پیراندر زیلگ کو حراست بعد لاپتہ کر دیا۔واضح رہے کہ اس سے قبل 2013 میں پاکستانی فوج نے انور کو اغوا کرنے بعد چار ماہ اپنی حراست میں رکھا اور اسکے بعد اسے چھوڑ دیا گیا تھا۔

۔۔۔لورالائی سے ایک شخص کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔مسخ شدہ لاش لورالائی میں میختر کے علاقے درگئی وتھ سے برآمد ہوئی ہے جس کو شناخت کے لیے ہسپتال منتقل کردیا گیاہے۔ لاش کو زیر زمین چھپایا گیا تھا جبکہ قتل کے محرکات بھی تاحال معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔

۔۔۔ نصیر آباد کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی سولنگی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک شخص جان بحق ہوا ہے۔جان بحق ہونے والے شخص کی شناخت جان محمد سولنگی کے نام سے ہوگئی ہے۔

18 جون

۔۔۔ آواران کے علاقے جھاو کے مضافاتی علاقے جھل جھاؤ سے قابض فورسز سینکڑوں کی تعداد میں ندی نال کور اور جھل جھاو کے پہاڑی سلسلوں میں داخل۔
یاد رہے اس سے قبل ندی نال کور اور جھل جھاؤ کے پہاڑی سلسلوں میں آباد کئی بستیوں کو نذر آتش کیا گیا اور صدیوں سے آباد لوگوں کو جبری نقل مکانی کے لیے مجبور کیا گیا۔
گزشتہ سال 2018 میں جھل سے ملحقہ پہاڑی سلسلہ ٹڑانچ میں سیکورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران پانی کے چشموں اور تالابوں میں زہر ڈالے تھے۔
زہریلی پانی پینے سے کئی افراد جان بحق ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ زہریلی پانی پینے سے تمام ہلاک شدہ افراد کی فہرست بلوچ نیشنل مومنٹ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ فورسز نے دوبارہ انہی علاقوں میں خونی آپریشن کا آغاز کردیا۔

۔۔۔پاکستانی فوج نے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے لطیف اور اس کے جوانسال بیٹے مئیس سکنہ دشت کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے، چھاپہ کے دوران گھر میں موجود خواتین اور بچوں کو شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ کا بناکر گھروں میں توڑ پھوڑ اور قیمتی سامانوں کا صفایا کردیا جبکہ گھر کے تمام افراد کے موبائل قبضے میں لے کر اپنے ساتھ لے گئے۔

۔۔۔ کیچ کے علاقے دشت میں پاکستانی فوج نے دشت کے علاقے اہواری اور سیاجی میں آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے کئی گھروں میں لوٹ ماری کے بعد ایک گاڑی بھی ساتھ لے گئے۔

۔۔۔ حب درو ہوٹل کے قریب قابض فورسز نے دشت تولگی کے رہائشی بجار ولد قادر نامی نوجوان کو گرفتاری بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

19 جون
۔۔۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے پاکستانی سیکورٹی فورسزو خفیہ اداروں نے لاپتہ رمضان بلوچ کے بیٹے علی حیدر بلوچ کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔

۔۔۔پاکستانی فوج نے کراچی سے دو بلوچ طالب علموں کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔
پاکستانی فوج نے 14مئی 2019کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے دو بلوچ طلبا نسیم ولد حاجی محمد کریم اور آفتاب ولد خیر محمد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے،نسیم کا تعلق گوادر سے ہے جو اس وقت کراچی میں ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی میں ایل ایل بی فائنل ائیر کا طالب ہے جبکہ آفتاب احمد کا تعلق کراچی کے علاقے شفیع گوٹھ سے ہے۔

۔۔ کیچ کے علاقے دشت سے پاکستانی فوج نے ایک شخص عزیز ولد حاجی احمد سکنہ پیرانی بست دشت کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔

۔۔۔ لسبیلہ کے علاقے وندر سے ایک ماہ قبل میار ولد محمودسکنہ سہرکرودی گریشہ خضدار کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے،لاپتہ میار کے خاندان نے آج تصدیق کردی ہے۔

20 جون
۔۔۔ کیچ کے علاقے دشت سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے چھاپہ مار کر ایک بلوچ نوجوان مجیب ولد عبدالقادرکو حراست میں لے کرلاپتہ کردیا۔

۔۔۔بلوچستان کے صنعتی شہر حب سے پاکستانی فورسز نے ستر سالہ بیمار بزرگ ضلع کیچ،کے رہائشی واجہ شہسوار کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
شہسوار بلوچ گذشتہ کئی سالوں سے بیمار ہے جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو فورسز قتل کر چکے ہیں، جن میں ان کے چار بیٹے بھی شامل ہیں۔

21 جون
۔۔۔ ہرنائی سے ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ زرغون غرطور نری کے قریب ایک نامعلوم شخص کی لاش ملی ہے جس کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔لاش کو بی ایچ یو طور شور زرغون غر منتقل کردیا گیا جبکہ لاش کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے۔

۔۔۔ ڈیرہ بگٹی کے علاقے چبدر سے نامعلوم مسلح افراد نے گذشتہ روز دو بھائیوں کو انکے گھر سے اغواء کرکے لے گئے تھیں۔ دونوں بھائیوں کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کے بعد لاشیں ویرانی میں پھینک دی گئی ا س واقعے کی محرکات سامنے نہ آسکیں

۔۔۔کوئٹہ مشرقی بائی پاس سے حیدر نورزئی نامی شخص کی لاش برآمد ہوئی جسے ایدھی سروس کے رضاکاروں نے ہسپتال منتقل کردیا۔

۔۔۔گذشتہ دنوں گوادر سے لاپتہ ہونے والا علی حیدر بلوچ بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔

۔۔۔ گذشتہ روز لاپتہ ہونے والے 70 سالہ بزرگ شہسوار بلوچ بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے۔
شہسوار بلوچ کو گذشتہ روز حب چوکی سے پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا تاہم آج شہسوار بلوچ بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔

۔۔۔پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست 8جون 2019کو گوادر سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے رضوان راہی اور بلال حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
یاد رہے رضوان راہی اور بلال کے ہمراہ پاکستانی فوج نے نجیب نور، عادل بلوچ اور نعیم دیدگ کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا تھا رضوان اور بلال حراست بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے جبکہ نجیب نور عادل بلوچ اور نعیم دیدگ تاحال لاپتہ ہیں۔

22 جون

۔۔۔پنجگور سے قابض فورسز نے بلوچ قلمکاراقبال زہیر ولد شہید ماسٹر ستار بلوچ کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیاتھا۔
اقبال کے والد ماسٹرستار کو پاکستانی فوج نے 10اگست 2010کو بی این ایم کے رہنما آغاعابد شاہ اور ماسٹر سفیر بلوچ کے ہمراہ پنجگور کے علاقے چتکان سول ہسپتال سے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا تھا اور 11مئی 2011کو پنجگور کے علاقے سورآپ سے تینوں کی لاشیں ایک اجتماعی قبر سے برآمد ہوئی تھیں

۔۔۔پنجگور سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد لاپتہ ہونے والا بلوچ قلمکار و استاد اقبال زہیر بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے ہیں۔

23 جون
۔۔۔کیچ کے علاقے تمپ میں قابض فورسز حاجی لطیف کے گھر پر چھاپہ مار گھروں میں لوٹ ماری اور توڑ پھوڑ کی ہے، کیچ کے علاقے تمپ پل آباد میں چادر و چاردیواری کی پامالی کرتے ہوئے حاجی لطیف کے گھر پر چھاپہ مارکر گھروں میں توڑ پھوڑ کے بعد قیمتی سامانوں کا صفایا کردیا ہے۔

۔۔۔کیچ کے علاقے قابض فوج نے مند بلو میں چھاپہ مارکر نور بخش ولد لال بخش کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا،نوربخش کے اہلخانہ نے اغواء کے خلاف مند سورو میں فوجی کیمپ کے سامنے احتجاج کیا۔24 جون

۔۔۔کیچ کے علاقے ہوشاپ تل سر کو پاکستانی فوج نے گھیرے میں لے کر آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے کئی گھروں پر چھاپہ مارکر گھروں سے قیمتی سامانوں کا صفایا کردیا ہے۔

پاکستانی فوج نے آواران کے علاقے گزی میں چھاپہ مار کر ایک شخص عظیم ولد مزار کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔فور سز نے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ گھر میں موجود تمام اشیاء کا صفایا کر دیا۔

26 جون

۔۔۔بولان کے مختلف علاقوں مچھ، جعفری، مارگٹ اور گونی پْرا میں قابض فوج کی آپریشن۔بولان کے دیگر علاقوں کی طرح گونی پْرا میں بھی زیادہ تر بلوچ خانہ بدوش آباد ہے جن کا ذریعہ معاش مالداری ہے اور گرمیوں کے موسم میں وہ ان علاقوں کا رْخ کرتے ہیں۔ پاکستانی فوج آپریشنوں میں عام آبادیوں کو نشانہ بناتی رہی ہے اور ان آپریشنوں میں مردوں سمیت خواتین و بچوں کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا جاتا ہے۔
یاد رہے گذشتہ دنوں بولان اور لورالائی کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کی گئی تھی جو تین دن تک جاری رہا جس میں گن شپ ہیلی کاپٹروں سمیت جیٹ طیاروں نے بھی حصہ لیا تھا۔

۔۔۔خضدار کے علاقے گورو کے پہاڑی علاقے میں درختوں کے درمیان نامعلوم شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے جسے لیویز اہلکاروں نے اسپتال منتقل کردیا ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق لاش چھ دن پرانی ہے جسے قتل کرنے کے بعد لاش ویرانے میں پھینک دی گئی ہے۔

۔۔۔کوئٹہ کے علاقے دشت تیرا میل میں کنویں سے ایک شخص کی کئی روز پرانی لاش برآمد ہوئی ہے جس کو اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں اس کی شناخت محمد اسحاق ولد عبدالرزاق بنگلزئی کے نام سے ہوئی ہے۔
تاحال دونوں افراد کے ہلاکتوں کی محرکات سامنے نہ آ سکے۔

۔۔۔آواران کے مشکئے وادی مشکے میں قابض فورسز کے زیر حراست مستری بشیر احمد ولد فقیر محمدتشدد سے شہید،بشیر احمد کو گزشتہ روز پاکستانی فورسز نے وادی مشکے کے علاقے نوکجو سے دوران آپریشن حراست بعد لاپتہ کیا تھا اور انکی انتہائی تشدد زدہ مسخ لاش کوگجر آرمی کیمپ کے قریب پھینک دیا گیا۔

27 جون
۔۔۔ قلات کے علاقے جوہان میں قابض فورسز نے شیخ حاجی چیک پوسٹ کے قریب ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد انہیں تشدید تشدد کا نشانہ بناکر جبری طور پر لاپتہ کر چکے ہیں۔جن کی تاحال شناخت نہ ہوسکی ہے۔

۔۔۔واشک کے راغے،کہن،ٹوبہ میں فوجی آپریشن، گچک کی جانب بھی فوجی نقل و حرکت دیکھنے میں آیا ہے۔

۔۔۔پنجگورسے پروم سے 14 مارچ 2019 کو ثناء اللہ نامی نوجوان ایف سی کیمپ میں داخل ہوا تھا جس کے بعد سے اس کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں مل سکی تھی آج ثنا اللہ ایف سی کیمپ ہی سے بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا۔اہلخانہ کے مطابق ثناء اللہ ولد عبدالرشید کو فرنٹیئر کور اہلکاروں نے فون کرکے اپنے ہیڈ کوارٹر منگوایا تھا جس کے بعد انہیں اپنی تحویل میں رکھا گیا۔

۔۔۔کیچ کے مختلف علاقوں میں آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد فوجی کیمپ منتقل کردیا ہے۔
دو دن قبل کیچ کے علاقے سنگ آباد تجابان میں پاکستانی فوج نے شادی والے گھر پر چھاپہ مارکر دلہے کو اغواء کرنے بعدفوجی کیمپ منتقل کردیا اور بعدازاں شدید تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا۔کیمپ منتقل کئے جانے والے شخص کا نام مجاہد ولد شہید ولی محمد ہے جو امارات میں مزدوری کرتا ہے اور وہ اس وقت وہ اپنی چھٹیوں میں شادی کرنے آیا ہوا تھا۔

۔۔۔ کیچ کے علاقے ہوشاپ گروک سے قابض فوج نے میں آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے گھر گھر تلاشی کے دوران گھروں سے قیمتی سامانوں کا صفایا کردیا ہے۔

۔۔۔ کیچ کے علاقے تمپ نذرآباد میں پاکستانی فوج نے چھاپہ مارکر بلوچی زبان کے شاعر اور پیشے کے لحاظ ٹیچر خالق گل کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا
28 جون
۔۔۔پاکستانی آرمی نے کیچ کے علاقے ہوشاب میں چیک پوسٹ کے قریب موٹر سائیکل سوار شخص کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے شخص کی شناخت محمد جان بلوچ کے نام سے ہوئی۔

۔۔۔ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی دس سال مکمل،بی این ایم کی جانب سے سوشل میڈیا میں کیمپین اوردنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے

29 جون
۔۔۔گذشتہ روز پاکستانی فورسز نے مچھ کے قریب سے ایک شخص کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا، ضلع بولان کے علاقے مچھ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے کوئلہ کان میں مزدوری کرنے والے عبدالصمد سمالانی کو دو دن قبل گرفتار کیا گیا تھا۔

30 جون
۔۔پسنی کے خداداد محلہ کا سابق کونسلر اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مقامی رہنماء کہدہ داد اللہ کی لاش ساحل سمندر سے برآمد ہوئی۔ کہدہ داد اللہ اپنے بیٹے اور بھتیجے کے ہمراہ گذشتہ شام گھر سے جڈی ہور کی طرف مچھلی کی شکار کے لئے نکلے تھے۔
سمندر میں لاپتہ ہونے والے تین افراد میں سے کہدہ داد اللہ کی لاش آج صبح بدوک کے سمندری کنارے سے برآمد ہوئی جبکہ دیگر دو لاپتہ ہونے والے افراد کی تلاش جاری ہے۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ماہی گیر حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے سبب اکثر اوقات سمندری لہروں کے شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

۔۔۔کیچ،:فورسز ہاتھوں لاپتہ دو طالب علم بازیاب،حمل عصاء اور طلال دوست بلوچ کو پانچ مئی دو ہزار انیس کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اس وقت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا جب دونوں کراچی سے اپنے اسکول کی چھٹیوں کے لیے تمپ جارہے تھے۔

واضح رہے بازیاب ہونے والے کمسن طلال کے والد چیئرمین دوست محمد بلوچ کو پاکستانی فورسز نے دو سال قبل بائیس مئی دو ہزار سترہ کو تربت سے کراچی جاتے ہوئے مسافر بس سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا اور تین دن بعد پچیس مئی کو چیئرمین دوست محمد کی مسخ شدہ لاش کنچی کے علاقے سے برآمد ہوئی تھی اور اس سے تین ماہ قبل چیئرمین دوست محمد کے بڑے بیٹے طاہر بلوچ کو بھی پاکستانی خفیہ اداروں کے قائم کردہ ڈیتھ اسکواڈ نے تمپ گومازی میں فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

۔۔۔بارکھان میں ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔نامعلوم شخص کی لاش بارکھان کے علاقے رْکنی میں رڑکن کے مقام سے ملی ہے جس کو گولیاں مارکر قتل کیا گیا۔انتظامیہ کے مطابق مذکورہ شخص کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے

۔۔۔نوشکی اورخاران سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد جبری طور پر لاپتہ ہونے والے چار افراد نوشکی سے بازیاب ہوگئے۔
نوشکی اور خاران سے گذشتہ کئی سالوں سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے چار افراد آج نوشکی سے بازیاب ہوگئے جن میں مدثر جمالدینی، محسن جمالدینی سکنہ نوشکی اور شکور ولد عبداللہ، سعید احمد ولد محمد کریم سکنہ خاران شامل ہیں یہ لوگ 2016سے فورسز کے حراست میں تھے۔

۔۔۔خضدار سے فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے ذاکر حسین ولد سلیمان سکنہ زیدی، وسیم احمد ولد محمد نور سکنہ اورناچ، غازی خان ولد علی دوست سکنہ خضدار اور عنایت اللہ ولد محمد رمضان سکنہ بسیمہ بازیاب ہوگئے۔