بلوچ کلچر ڈے اور وقت کا تقاضہ – میروان بلوچ

655

بلوچ کلچر ڈے اور وقت کا تقاضہ

میروان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سوشل میڈیا پہ ہر سال کی طرح اس سال پھر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ کلچر ڈے کے حوالے سے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ہر کوئی نئے کپڑے، جوتے اور دستار کی دوڑ دھوپ میں ہے کہ کس طرح دوسروں سے مختلف دکھنے کی کوشش کی جائے۔ سوشل میڈیا پہ بلوچوں کے اکاؤنٹس اور پیجز پہ بڑا واویلا کیا جارہا ہے لیکن آیئے ذرا ایک نگاہ تصویر کی دوسری طرف بھی دوڑاتے ہیں۔ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کلچر کیا ہے؟ پھر بلوچ کلچر کیا ہے؟ موجودہ حالات و واقعات کا تقاضہ کیا ہے؟

ثقافت کسی مخصوص علاقے میں کسی مخصوص قبیلے یا قوم کے عقائد، ان کی رہن سہن، ان کے اخلاقی روایات، کا نام ہے اور پھر بلوچ ثقافت کی تعریف اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں صرف ایک جملے میں کہونگا کہ باہر کے حملہ آوروں اور قبضہ گیروں کے خلاف مزاحمت بلوچ ثقافت کہلاتا ہے لیکن پھر بھی تفصیل میں بلوچ ثقافت میں بلوچ قوم کی مہمان داری، وطن سے محبت، درآمدوں کے خلاف مزاحمت، اپنے ہمسائیوں کی حفاظت، زبان سے محبت، اپنے قومی ساحل و وسائل کی تحفظ، دشمن سے بیرگیری، اپنی ماؤں بہنوں کے عزت کی تحفظ ، ننگ و ناموس کی رکھوالی بلوچ ثقافت کہلاتا ہے یہ میرا موقف ہے بلوچ ثقافت کے اوپر، اس سے اختلاف کا حق سب کو ہے۔

بلوچ ثقافت حمل جئیند کا نام ہے، بلوچ ثقافت بالاچ کا نام ہے، بلوچ ثقافت داد شاہ کا نام ہے، بلوچ ثقافت ایک ایسی ثقافت ہے جہاں ایک بہن سمی کی خاطر دودا اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہوتا ہے۔ بلوچ ثقافت یہ ہے کہ ایک مہمان ڈاکٹر شازیہ کی تحفظ کیلئے اسی سالہ نواب اکبر بگٹی اپنی آسائشوں کو چھوڑ کر بالاچ گورگیج کے نقشے قدم پہ چلتا ہے، بلوچ ثقافت یہی ہے جس میں بانڑی بلوچ فوج کا سپہ سالار ہوتی ہے، بلوچ ثقافت یہی ہے جب ایوبی آمریت کوہ سلیمان پر میلی آنکھ سے دیکھتا ہے تو وطن زادے جانوں کا نذرانہ دے کر وطن کی تحفظ کرتے ہیں۔ بلوچ ثقافت یہی ہے جب وطن کی رکھوالی کا وقت آیا تو بابو نوروز دشمن کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں۔ وطن کی ننگ و ناموس کی خاطر زرینہ مری دشمنوں کی زندانوں کو قبول کرتی ہے۔ بلوچ ثقافت میں یہی ہے کہ جہاں کمبر دشمن کو للکارتا ہے، جہاں ریحان جان بارود سے خود کو ہمیشہ کیلیے امر کرتا ہے، یہی بلوچ ثقافت ہے کہ جہاں آج بھی اسی ثقافت کو زندہ رکھنے کی خاطر ہزاروں بلوچ فرزند دشمن کے زندانوں میں ہیں، جہاں ہر رات، ہر دن دشمن ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتا ہے۔ بلوچ ثقافت یہی ہے کہ جہاں غلام محمد کا خون مرگاپ کے مٹی میں شامل ہوکر بلوچ کو ہمیشہ کیلیے زندہ کردیتا ہے۔ بلوچ مزاحمت ہی بلوچ ثقافت ہے۔ مزاحمت میں ہی بلوچ زندہ رہے گا، بلوچ ثقافت زندہ رہے گا۔

پھر آیئے ذرا وقت کا تقاضہ بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں ایک طرف بلوچ مائیں شال کی یخ بستہ سردی میں اپنے پیاروں کیلئے احتجاج پہ بیٹھی ہیں، جہاں ننھی ماہ رنگ اپنے والد نصیر کا راہ تک رہا ہے، جہاں مہلب و سمی ڈاکٹر دین محمد کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ترس رہے ہیں، جہاں ذاکر جان کی بوڑھی ماں کی آنکھیں ذاکر کی راہ تکتے خشک ہوچکی ہیں، جہاں سمیع مینگل کی بوڑھی ماں اپنے ٹوٹے ہوئے عصا کے سہارے شال کی سڑکوں پہ دھکے کھا رہی ہے۔ جہاں وطن کے چپے چپے میں دشمن کی ماڑیاں ہیں، جہاں دھرتی خون میں لت پت ہوچکا ہے، جہاں نہ ہمارے بچے محفوظ ہیں نہ ہماری مائیں محفوظ ہیں، جہاں زرینہ، نور ملک اور اسکی کمسن بچیاں نہ جانے دشمن کے کس زندان میں ہیں، جہاں گوادر لٹ رہا ہے، جہاں سیندک و ریکوڈک، بغل چر و ڈھوڈک کو دشمن لوٹ رہا ہے۔

جہاں آئے روز بلوچ بستیاں صفحہ ہستی سے مٹائے جارہے ہوں، جہاں دشمن کے ہیلی بلا تفریق شیلنگ کر رہے ہوں۔ ذرا سوچیئے ایسے حالات میں جشن کرنے، دھول کی تھاپ پہ رقص کرنے، بیس گز بڑی دستار پہننے، مری بور چوٹ پہننے کا وقت ہے؟ جہاں پریس کلب میں بوڑھی مائیں بیٹھی ہوں، وہیں دستار باندھے موٹر سائیکل پہ بڑے شان سے گذرنے کا حق آپ کو ہے، آیا سریاب روڈ پر یا یونیورسٹی میں ڈھول کی تھاپ اور چاپ کی آواز جب ان ماؤں بہنوں کے کانوں میں جاتی ہے تو یقین جانو دشمن کی توپوں کی گھن گرج سے کہیں زیادہ تکلیف ان کو آپ کی اس نمود نمائش اور نام نہاد کلچر سے پہنچتی ہے۔

گلی محلے میں نئے کپڑے ،جوتے اور دستار پہن کر جب شیہدوں کے گھروں کے سامنے سے گذرو گے تو ان ماؤں کے دلوں پہ دشمن کے وردی، بوٹوں کی آواز سے کہیں زیادہ تکلیف آپ کے اس عمل سے ان کو پہنچے گا۔ جب بھی دوستوں سے اس بابت گفتگو ہوتی ہے تو آگے سے جواب آتا ہے کہ کلچر ڈے کا آغاز بی ایس او نے کیا تو کیا وہ غلط تھے یا جی ہم تو بلوچ ثقافت کو زندہ رکھ رہے ہیں آپ لوگ خوامخواہ تنقید کرتے ہیں لیکن میرے یہ ساتھی ڈی کالونائزیشن کی اصطلاح سے واقف ہیں؟ میرے خیال میں نہیں ہوسکتا ہے، بہت سارے دوستوں کیلیے تو یہ اصطلاح ہی پہلی دفعہ سن رہے ہوں تو ان کیلئے عرض ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں بی ایس او کے ساتھیوں نے اس دن کا اہتمام کیا تھا لیکن آیا آپ واقعی میں وہی کلچر منا رہے ہیں جس کا اہتمام بی ایس او نے کیا تھا؟ بی ایس او نے تو بلوچ قوم کو پاکستانیت سے ڈی کالونائز کرنے کی خاطر کیا تھا اس میں بلوچ قومی آزادی کے گیت گائے جاتے تھے، بلوچ قومی بیرک کو سینے سے لگایا جاتا تھا اور تبھی اسی سے تو بوکھلا کر دشمن نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی۔ جس سے صدام بلوچ شہید ہوئے تھے، جس سے بیبرگ ہمیشہ کیلیے معذور ہوئے تھے۔ اس طرح کے کلچر ڈے سے دشمن کی بنیادیں ہلتے تھے اور دشمن نے اس کو ثبوتاژ کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا تھا۔

آیئے آج کے کلچر ڈے کا موازنہ بی ایس او کے کلچر ڈے سے کرتے ہیں، آیا ہمیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ کل تک دشمن اس دن کو منانے کے خلاف تھا، طاقت کا استعمال کرتا تھا، اس سے ڈرتا تھا کہ کہیں بلوچ حمل و جئیند کے ثقافت کو اس طرح تیزی سے نہیں پھیلائیں اور ایک آج کا کلچر ڈے کہ جس کو دشمن خود لوگوں کو طاقت کی زور پر ان کو کہتا ہے کہ کلچر ڈے مناؤ، اپنی چھاؤنیوں میں اس طرح کے پروگرام کا اہتمام کرتا ہے، کچھ تو ہے جس کا دشمن اس حد تک جانے کیلئے تیار ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو دستار پہنا کر انکی تصوریں اور ویڈیوز جاری کرتا ہے؟ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کہیں دشمن نے اس دن کا پلڑا اپنی طرف تو نہیں پلٹا؟ میرے خیال میں اس کا جواب ہر ذی شعور انسان ہاں میں دے گا کہ دشمن دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر استعمال کررہا ہے تو پھر ہم خود کو خود دشمن کی پالیسیوں کا حصہ بنا رہے ہیں۔ تو کیوں نہ ہم اس نمود و نمائش والی نام نہاد کلچر کو چھوڑ کر اس حقیقی بلوچ ثقافت کو گلے کیوں نہ لگائیں جس کی خاطر ہمارے شہیدوں نے اپنا لہو دیا تھا؟

وہ ثقافت مزاحمت ہے، وہ ثقافت بلوچ دھرتی کا تحفظ ہے۔ آج بلوچ دھرتی اور بلوچ قوم انتہائی نازک موڑ پر کھڑے ہیں، آج کے حالات یہ اجازت نہیں دیتے کہ چاپ اور ناچ کیا جائے بلکہ آج کے وقت کا تقاضہ لاپتہ افراد کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے، شہدا کے مشن کو آگے بڑھانے کا ہے، بلوچ دھرتی کو دشمن کی چنگل سے آزاد کرنے کا وقت ہے اور یہی مندرجہ بالا بلوچ ثقافت ہے۔ اگر ان میں ایک بھی آپ سے نہیں ہوتا تو پھر یہ دکھاوہ بھی چھوڑ دیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔