‎ارمان لونی کا حراستی قتل ۔ توارش بلوچ

177

ارمان لونی کا حراستی قتل

‎تحریر : توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎پروفیسر ارمان لونی نا پہلا اور یقیناً نا ہی آخری پشتون ہے، جو پاکستانی ریاستی اداروں کے ہاتھوں بیہمانہ طور پر شہید ہوا ہے، پشتونوں کے خلاف ریاستی جبر ظلم اور ناانصافیوں کا قصہ کافی پرانا ہے لیکن اس میں وسعت 2013 میں سوات اور وزیرستان میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آئی، جب پشتونوں کو سرے عام ریاستی فوج نے قتل کیا۔ پشتون جو قبائلی لوگ ہیں اور اپنے عزت و ننگ و ناموس کا خیال رکھتے ہیں کی ماؤں اور بہنوں کو ریاستی قاتل فوج نے بےآبرو کیا، وہ سارے جبر ظلم اور طاقت کا بہیمانہ استعمال جو 1971 میں ریاستی فوج نے بنگلادیش میں کیا آج ہوبہو وہی سلسلہ بلوچ، سندھی سمیت پشتونوں کے ساتھ جاری ہے۔ امریکہ سے فنڈ لینے کیلئے جس بےدردی سے پشتون عوام کو ریاستی فوج نے قتل کیا اس کی مثالیں نہیں ملتیں۔ ایک طرف امریکہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ڈالر وصول کیا گیا اور دوسری طرف عام پشتونوں کو ٹارگٹ کیا گیا، وہاں لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا، فوجی جیٹ طیاروں سے بمباریاں کی گئیں، ہزاروں لوگ لاپتہ کیے گئے جبکہ کچھ لوگوں سے پیسے لیکر ان کے گمشدہ افراد کو بازیاب کیا گیا جبکہ دیگر کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا۔

یہ جبر و طاقت اور وحشی پن کا مظاہرہ آج بھی پاکستانی فوج نے پشتونوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے، ریاستی دہشت گرد فوج کے سامنے جس کسی نے بھی سوال اٹھایا ہے، اُسے قتل کیا گیا ہے، چاہے وہ کوئی پروفیسر رہا ہو، یا عام سا بندا، جب بھی کسی نے سچائی کی بات کی ہے ریاست نے اُسے سرے عام قتل کیا ہے، جس کے واضح مثال بلوچستان میں ملتے ہیں، بلوچ پروفیسر واجہ صباء دشتیاری کو جو آزادی کی بات کرتا تھا، جو سچائی کی بات کرتا تھا، جو انصاف کی بات کرتا تھا، سرے عام سریاب روڈ پر پاکستانی انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے فائرنگ کرتے ہوئے شہید کیا، شہید پروفیسر زاہد آسکانی کے ساتھ بھی فوج نے یہی کیا، مختلف شکلوں میں مظلوم اقوام کے پروفیسروں اور تعلیم یافتہ طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہے، آج ہوبہو جو ظلم و جبر ایک طرف بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ جاری ہے، وہی جبر اور طاقت کا مظاہرہ مظلوم پشتونوں کے خلاف ہو رہا ہے۔

‎تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی دہشتگرد فوج اور اس کے سارے ادارے کسی بھی سچائی کو قبول نہیں کر سکتے ہیں، حتیٰ کہ ذرائع ابلاغ جیسے ادارے بھی اب صرف ریاستی بیانیہ کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں اور لوگوں پر بمباری کو دہشت گردی کے ٹھکانوں پر بمباری ظاہر کرتے ہیں جس کے مثال بلوچستان اور وزیرستان میں ہمیں ملتے رہے، پاکستان کے سارے ادارے چاہے وہ فوج ہو، ایجنسی ہو، یا پولیس سب ریاستی دہشت گردی کے ستون کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، پاکستانی ریاست نے کبھی سچ کو سُننے کی جرات نہیں کیا ہے جبکہ اس پنجابی ریاست نے جب بھی سچائی کا سامنا کیا ہے تو اُسے بندوق کی نوک سے مٹانے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا ایک مثال پروفیسر ارمان لونی کی شہادت ہے، جہاں بہیمانہ طور پر ایک تعلیم یافتہ پروفیسر کو سرے عام ڈنڈوں سے مار کر قتل کر دیا گیا، یہ دنیا کی شاید واحد پولیس ہو، جو گرفتار کرنے کے بجائے تشدد کرتے ہوئے لوگوں کو شہید کرے، دنیا میں پروفیسروں کو کیسا مقام حاصل ہے اور پاکستان میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے، یہ ارمان لونی کی ظالمانہ قتل سے ثابت ہوتا ہے۔

‎پشتون قوم جو آج پی ٹی ایم اور منظور پشتین کی قیادت میں جو تحریک ریاست پاکستان کے ظالم فوج کے خلاف چلا رہے ہیں اس میں لوگوں اور عام عوام کی شرکت ریاستی جبر کو ظاہر کرتی ہے، پشتون کئی سالوں سے ایسی تحریک کے انتظار میں بیٹھے ہیں، جو مظلوم پشتونوں کی حقیقی آواز بن کر ابھریں، جس طرح پشتونوں کو ریاستی فوج نے قتل کیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج پشتونوں کو شہری نہیں بلکہ غلام سمجھتا ہے۔ جن کو جب چاہے قتل اور جب چاہے اغواہ اور دوسرے ملکوں کے ہاتھوں بیچ سکتا ہے جبکہ ضرورت پڑنے پر انہی معصوم پشتونوں کو اسلامی جہاد کے نام پر ورغلا کر اپنے مفادات کیلئے دوسروں کا قتل کرواتا ہے۔ پاکستانی ریاست کیلئے پشتون ہمیشہ سے غلام رہے ہیں۔ اب پشتون قوم جاگ اٹھی ہے، اس لیئے پشتونوں کو چاہیئے کہ اپنی قومی آزادی کیلئے آواز بلند کریں، یہ ریاست دنیا کا سب سے بڑا مکر و فریب ریاست ہے جو ریاست اپنے لوگوں کو پیسوں کیلئے قتل اور اغواء کریں اس ریاست کے اندر اپنے آنے والے مستقبل کو دیکھنا میرے خیال سے سورج کو انگلی سے چھپانے کے مترادف ہوگا۔

پاکستانی ریاست کسی بھی مظلوم قوم کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتی بلکہ یہ ریاست صرف پنجابیوں کیلئے ہے یہ یہی ریاست ہے جہاں چار پنجابیوں کے قتل پر آسمان کو سر پر اٹھایا جاتا ہے اور دوسری جانب ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بلوچوں اور پشتنونوں کے قتل پر خاموشی طاری کیا جاتا ہے، پاکستان ایک ظالم اور جابر ریاست ہے جہاں صرف پنجابیوں کو ہی انصاف مل سکتا ہے۔

پروفیسر ابراہیم ارمان لونی کا سرے عام بہیمانہ قتل پشتونوں کیلئے دشمن کی جانب سے ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستانی ریاست سے جو بھی حقوق کی بات کرے گا جو بھی انصاف کی بات کرے گا چاہے وہ کوئی ارمان لونی کی طرح پروفیسر ہو یا ایک عام پشتون یا بلوچ اس کو یہی جواب ملے گا اب پشتنونوں کو چاہیئے کہ مزید وقت نہ لیں بلکہ پشتونوں کے اصل قائد منظور پشتین کی رہنمائی میں ریاست پاکستان جو پشتنونوں کا ازلی دشمن ہے کے خلاف علم بغاوت بلند کریں، پشتنونوں کے پاس پاکستان سے آزادی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، جس قوم کے پروفیسر سرے عام اس طرح ریاستی اداروں کے ہاتھوں قتل کیئے جائیں اس قوم کو مزید خواب خرگوش میں نہیں سونا چاہیئے بلکہ ریاستی جبر ظلم اور طاقت کے خلاف اٹھنا چاہیئے اور اپنے حقوق اور آزادی کی خاطر لڑنا چاہیئے اب مظلوم پشتون بلوچ اور سندھیوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

‎شہید ارمان لونی کا خون انقلاب کا نوید ہے، کوئی بھی تحریک خون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا، سامراجی ریاستوں سے آزادی بیٹھ کر نہیں مل سکتی بلکہ اس کیلئے قربانیاں درکار ہوتی ہیں، آج شہید ارمان لونی نے اپنی جان کا نذرانہ پشتون قوم کیلئے پیش کیا ہے، ارمان لونی نے انقلاب کی کامیابی کیلئے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔ پشتون قوم کو اس وقت سوگ میں نہیں بلکہ اپنے شہد پر فخر کرنا چاہیئے اور اپنے تحریک کو مزید مضبوط کرنا چاہیئے، شہادتیں قومی تحریکوں کو ایندھن فراہم کرتے ہیں، قومیں شہادتوں کے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتے ہیں، پشتون بلوچوں کی طرح ایک خوش قسمت قوم ہے جہاں پروفیسر ارمان لونی جیسے تعلیم یافتہ لوگ بھی اپنے قوم کیلئے اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرنے کو بروقت تیار بیٹھے ہیں، شہید ارمان لونی کی شہادت پشتون تحریک کیلئے ایک نئے اُبھار کی صورت میں نکلنا چاہیئے، جس طرح شہید نواب اکبر بگٹی کی شہادت سے بلوچ قومی تحریک کو اُبھار ملی اب پشتونوں کا فیصلے کا وقت ہے کہ وہ اپنے شہید پروفیسر کی خون کا بدلا ایک آزاد پشتونستان کی صورت میں لیں، ریاست پاکستان کے فریم ورک میں آپ جب تک اپنے حقوق اور انصاف کی بات کرتے رہو گے ریاستی فوج کی جانب اسی طرح کا جواب ملتا رہے گا، یہ آج کا واقع نہیں بلکہ اسی ہی جابر ریاست نے بنگالیوں کے ساتھ 1972 میں کیا۔ جہاں بنگالی عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا گیا بچوں سمیت ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو چن چن کر شہید کیا گیا، ہمیں بھولنا نہیں چاہیئے کہ پاکستانی فوج آج بھی وہی فوج ہے جو بھی سوال اٹھائے گا جو بھی اپنے حقوق کی بات کرے گا ریاستی ادارے اُنہیں اس طرح سرے عام تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کریں گے یہ سلسلہ تب تک نہیں رکے گا جب تک مظلوم بلوچ پشتون اس دہشت گرد ریاست کے غلام رہیں گے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔