ریحان عمل کا نام – میار بلوچ

500

ریحان عمل کا نام

میار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

جاری قومی تحریک میں بلوچ نوجوانوں کا کردار حوصلہ افزا اور مثالی ہے۔ موجودہ قومی تحریک کی ایک بہترین اور خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ بلوچ قومی تحریک سے منسلک حقیقی قائدین اور کارکنان پارٹی، تنظیم اور اداروں کی حیثیت و اہمیت کو سمجھ کر موثر طریقے سے منزل کی جانب محو سفر ہیں۔ ماضی کی تحریکوں کے برعکس موجودہ تحریک کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ موجودہ تحریک میں مکمل سائنسی اور سیاسی طریقوں پر کاربند ہوکر منزل کے حصول کی خاطر جدوجہد کی جاری ہے۔

بلوچ قومی تحریک برائے آزادی میں موجود سیاسی اور مسلح جدوجہد سے منسلک جماعتوں اور تنظیموں کے کارکنان ہر قسم کی قربانی دینے کی جذبے سے سرشار ہوکر دشمن ریاست اور اسکی استحصالی پالیسیوں کیخلاف شعوری جدوجہد کررہے ہیں۔ اور دشمن ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ ریاستی ظلم، جبر و بربریت، لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے ، انہیں اذیت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے سمیت انکی مسخ لاشیں پھینکنے جیسے واقعات کا بھی خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے دشمن سے دلیرانہ وار مقابلہ کررہے ہیں جس سے دشمن خوف اور وحشت کی کیفیت میں مبتلا ہوچکا ہے۔

نومولود قابض ریاست بلوچ قومی تاریخ، بلوچ جغرافیہ، بلوچ سوچ، بلوچ مزاحمت اور بغاوت سے نامعلوم اور بے خبر اپنی خواب خرگوش میں یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ بلوچ تحریک ختم ہونے والی ہے یا قومی تحریک سے منسلک لوگوں کو ڈرا دھمکاکے، تشدد کرکے، اغواء کرکے یا قتل کرکے اس تحریک کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ریاست اپنے اس شیطانی عزائم کو کسی بھی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی تھی اور اسی وجہ سے ریاست نے بلوچستان میں سی پیک کے نام پر چائینیز اور پنجابی آبادکاروں کو لانے آباد کرنے کی پلاننگ کی ہے اور سی پیک سمیت دوسرے پراجیکٹز پر چینی انجنیئرز کی مدد سے کام جاری و ساری رکھے ہوئے تھے۔

چائنا بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں جس طرح سے پاکستانی استحصالی پالیسیوں کی کمک و ہمراہ داری کررہی ہے، اس پر بلوچ قومی تنظیموں اور لیڈروں نے بہت دفعہ چینی حکمرانوں کو براہ راست پیغام دیا ہے کہ بلوچستان میں کسی بھی پروجیکٹ کو بلوچ قومی مرضی و منشا کے بغیر کامیاب ہونے نہیں دیا جائے گا۔

اس بابت بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اور بی ایل اے کے سربراہ استاد اسلم بلوچ نے بعض دفعہ چائنا کو تنبیہہ بھی کیا مگر طاقت کے نشے میں چور پاکستان اور چینی حکمران بلوچ مزاحمت کی طاقت کو یکسر مسترد کرکے اپنی شیطانی عزائم کو بڑھانے میں مگن تھے۔

۱۱ اگست کو بلوچستان کے علاقے دالبندین میں بلوچستان کا خوشبودار پودہ ریحان جان قابض دشمن اور اسکے حواریوں کے سامنے چٹان کی طرح کھڑا ہوکر دشمن کو یہ پیغام دیتا ہے کہ بلوچستان ایک لاوارث سرزمین نہیں اور بلوچ قوم اپنی وطن اور اپنے وسائل کی حفاظت کرنے کی خاطر کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے۔

ریحان جان کے حملے کے اثرات کچھ اس طرح سے سامنے آئے کہ چائنا اور پاکستان دونوں ہی قابض ریاست مجبور ہوکر سوچ میں پڑھ گئے کہ اب سی پیک سمیت باقی تمام منصوبوں کی کامیابی تقریباً ناممکن ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ان ریاستوں کے درمیان اندرون خانہ دوریاں بھی بڑھنے لگیں ہیں اور چائنا نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے تمام چائنیز انجنیئروں کی حفاظت یقینی بنایا جائے اور انہیں کسی بھی طرح کی مشکلات پیش ہونے نا پائے۔ حالات اس نہج تک پہنچ گئے پاکستان اور چائنا کو اس پراجیکٹ کی تکمیل کیلئے ایک اور فریق سعودیہ عرب کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔

بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بی ایل اے کے مجید برگیڈ نے اس واقعے کے بعد یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اس طرح کے حملے چائنا اور پاکستان کے بلوچستان سے مکمل انخلاء تک جاری رہینگے اور ریحان جان کے کاروان کے ساتھی اور بھی شدت کے ساتھ ان ریاستی پراجیکٹوں پر حملہ آور ہونگے اور بلوچستان کو ان قابضوں سے آزاد کرانے کی خاطر کسی بھی طرح کے قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹینگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔