پاکستان میں سالانہ ایک ہزار سے زائد بچے بچیوں کا ریپ ہوتا ہے -رپورٹ

667

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان میں سالانہ اوسطاﹰ ایک ہزار سے زائد بچے بچیاں اغوا کر لیے جاتے ہیں۔ ریپ اور اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے معصوم لڑکے لڑکیوں کی اوسط تعداد بھی ہزار سے زائد ہوتی ہے۔

یہ اعداد و شمار ایسے جرائم کے ہیں، جو پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں جب کہ ایسے بہت سے جرائم سماجی بے عزتی کے خوف یا مجرموں کی طرف سے دھمکیوں جیسی وجوہات کے باعث پولیس کو رپورٹ کیے ہی نہیں جاتے۔ پاکستان میں اس نوعیت کے جرائم کا قومی سطح پر ریکارڈ رکھنے کا کوئی خصوصی نظام موجود نہیں لیکن چند ملک گیر غیر سرکاری تنظیمیں اس شعبے میں بڑی محنت سے کام کر رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک بچوں کے تحفظ اور ان سے متعلق جنسی جرائم کے خلاف سرگرم تنظیم ’ساحل‘ بھی ہے۔

پاکستان اکثریتی طور پر مسلم آبادی والا ملک ہے، جہاں عوام کی اکثریت میں قدامت پسندانہ مذہبی رجحانات پائے جاتے ہیں اور مذہب کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ پھر بھی جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی شرح مقابلتاﹰ اتنی زیادہ کیوں ہے؟ ایسے جرائم کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار اگر ان جرائم کے عملی اسباب کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بہت سے ماہرین یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سماجی طور پر ایسے جرائم کے پس منظر محرکات کیا ہوتے ہیں۔

بڑے اسباب

کئی سماجی، نفسیاتی اور عمرانیاتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ان جرائم کے ارتکاب کے بڑے اسباب غربت، بے روزگاری، سماجی طور پر عزت اور غیرت کا تصور اور انصاف کی فراہمی کے نظام میں پائی جانے والی خامیاں ہیں۔ متعدد دیگر ماہرین کے مطابق انفرادی اخلاقی سطح پر خود احتسابی کی کمی اور معاشرے میں موجود گھٹن اور محرومی کے احساس کو بھی ایسے جرائم کے اسباب کی فہرست سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستانی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ اس طرح کے جرائم سے متعلق ہر سال ایک رپورٹ جاری کرتی ہے۔ اس تنظیم نے دو ہزار سترہ کے لیے اپنی رپورٹ میں جو اعداد و شمار جاری کیے، وہ کم تشویشناک نہیں ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2017 میں بچوں کے اغوا کے مجموعی طور پر 1039 واقعات سامنے آئے تھے۔ گزشتہ برس ملک میں کم سن بچیوں سے لے کر نابالغ لڑکیوں تک کے ریپ کے کل 467 واقعات ریکارڈ کیے گئے جبکہ لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بھی 366 واقعات سامنے آئے۔ اس کے علاوہ 200 سے زائد واقعات میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوششیں کی گئیں۔ علاوہ ازیں پچھلے برس پاکستان میں لڑکوں کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے 180 اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے 158 واقعات بھی پولیس کو رپورٹ کیے گئے۔

متاثرین پر دباؤ اور دھمکیاں

پاکستان جیسے اکثریتی طور پر مذہبی معاشرے میں لوگ جنسی جرائم کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں اور کیا عدالتوں کی طرف سے سزا کا خوف ممکنہ مجرموں کو جرائم سے دور رکھنے میں مدد دیتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے ڈوئچے ویلے نے گفتگو کی، اسلام آباد میں بحریہ یونیورسٹی سے منسلک ماہر نفسیات ضوفشاں قریشی سے تو انہوں نے بتایا، ’’غربت ایسے جرائم کی اہم ترین وجہ ہے۔ جنسی جرائم میں ملوث افراد معاشرتی دباؤ استعمال کرتے ہوئے پہلے سے محرومی کے شکار افراد کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مظلوم اگر کوئی غریب بالغ لڑکی ہو تو معاملہ اس کے ساتھ شادی کی پیشکش کر کے اپنے طور پر حل کر دیا جاتا ہے۔‘‘

ضوفشاں قریشی کے مطابق، ’’پاکستانی معاشرے میں زیادہ تر جنسی تشدد کے شکار بالغ افراد کو ہی قصور وار سمجھا جاتا ہے۔ کئی واقعات میں مجرم سے شادی کو ہی انصاف کی فراہمی اور عزت کے تحفظ کا راستہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یوں بات عدالتوں تک نہیں پہنچتی۔ لوگ ایسے جرائم کی پولیس کو اطلاع دینے سے ویسے بھی بہت گھبراتے ہیں۔ ایک بڑا المیہ ’عورت کے بدلے عورت‘ جیسے مجرمانہ اور ظالمانہ تصفیے بھی ہیں، جو جرگوں یا پنچائتوں کی وجہ سے ممکن ہوتے ہیں لیکن جن سے خواتین کے حقوق مزید 2پامال ہوتے ہیں اور حوصلہ شکنی کے بجائے جنسی جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔‘‘

ایسے جرائم کی اطلاع پولیس کو دیے جانے کے بعد بھی زیادہ تر واقعات میں مظلوم کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ضوفشاں قریشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جنسی جرائم کے مجرموں کو سزائیں دلوانے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ اور میڈیکل رپورٹ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ایسے ٹیسٹ جرم کے ارتکاب کے تین دن کے اندر اندر کروانا ہوتے ہیں۔ بہت سے مقدمات ایسے ٹیسٹ بروقت نہ کرائے جانے کے باعث ہی خارج کر دیے جاتے ہیں۔‘‘

مظلوم لڑکیوں اور خواتین پر ہی الزام

جنسی جرائم کے ارتکاب کی پاکستان میں عام مذہبی شخصیات کی طرف سے کیا وضاحت کی جاتی ہے، یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، جڑواں شہر راولپنڈی اسلام آباد میں سنی تحریک کے صدر لیاقت علی رضوی سے۔ انہوں نے کہا، ’’مسئلہ ہمارے ہاں اسلام سے دوری ہے۔ اسلام نے عورت کو ایک خاص مقام دیا ہے۔ جب خواتین سرعام اور بے پردہ بازاروں میں گھومتی ہیں، تو مردوں پر شیطان غالب آ جاتا ہے اور وہ جنسی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ عورت باپردہ ہو اور کوئی اس پر حملہ کرے۔‘‘
لیاقت علی رضوی کا یہ ذاتی موقف پاکستان میں عوام اور ماہرین کی بہت بڑی اکثریت کی رائے سے متصادم ہے، کیونکہ سماجی طور پر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کسی لڑکی یا عورت پر اس لیے جنسی حملہ کر دیا جائے کہ اس نے پردہ نہ کیا ہوا۔
لیاقت علی رضوی سے ڈی ڈبلیو نے جب یہ پوچھا کہ پردہ تو عام طور پر بالغ خواتین یا جوان لڑکیاں کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں تو بہت سے کم سن بچے بچیوں کا بھی ریپ اور قتل دیکھنے میں آتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سنی تحریک کے اس رہنما کا موقف مذہبی کے بجائے سماجی نوعیت کا زیادہ تھا۔ انہوں نے کہا، ’’چھوٹے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا بھی سراسر زیادتی، جرم اور غلط ہے۔ ایسے جرائم میں اضافہ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ عدالتیں اپنا کام نہیں کر رہیں اور سزائیں دینے کے بجائے مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مجرموں کو سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی، تو ایسے جرائم کو روکنا بھی ممکن نہیں ہو گا۔‘‘