آئی ایس پی آر نے صحافیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی، پی ایف یو جے

482

پاکستان میں صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پی ایف یو جے نے افواج پاکستان کے ترجمان کے اس بیان کو مسترد کردیا ہے جس میں انہوں نے سوشل میڈیا پر بعض ٹوئیٹس شیئر کرنے والے صحافیوں کو ملک دشمن قرار دیا تھا۔

پی ایف یو جے نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ریاستی ادارے کی جانب سے اس طرح کے بیان کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

بدھ کو جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں صدر پی ایف یو جے أفضل بٹ اور سیکرٹری جنرل ایوب جان سرہندی نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل19 ہر پاکستانی شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔

تنظیم نے مطالبہ کیا کہ آئی ایس پی آر اس بیان کو واپس لے۔ اس نیوز بریفنگ کے دوران ڈی جی کے ریمارکس اور تصاویر نے صحافیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔

پی ایف یو جے کے سیکریٹری ایوب جان سرہندی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحافی دہشت گرد نہیں ہوتے۔ وہ خبر دیتے ہیں یا اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر کسی صحافی نے ریاست کے خلاف کوئی کام کیا ہو تو اس پر مقدمہ بنایا جاسکتا ہے، اسے اشتہاری قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ایوب جان سرہندی نے کہا کہ میڈیا کو دبانے کی کوشش ہر دور میں کی جاتی ہے لیکن آج کے دور میں یہ کام زیادہ ہو رہا ہے۔ سیاست دان بھی ایسی کوشش کرتے ہیں اور بعض ادارے بھی کہ جو ہم کہہ رہے ہیں، ویسا کریں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف لائحہ عمل بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پریس ریلیز جاری کرنا پہلا مرحلہ ہے۔ اصل کارروائی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اب ہم ان سے ملنے جائیں گے اور قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر اس کے باوجود وہ نہ مانے تو ہمارے پاس دوسرے راستے موجود ہیں جن میں عدالتیں، سڑکیں اور میڈیا شامل ہے۔

سینیر صحافی اور ہم نیوز کے ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز عامر ضیا کہتے ہیں کہ وہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی نیوز کانفرنس میں موجود تھے۔ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا تھا۔ لوگوں کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک فلائیر دکھایا تھا جس میں چند خالی جگہیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اشتعال انگیز پراپیگنڈہ وہاں سے شروع کیا جاتا ہے۔ اسے بہت سے لوگ اس پراپیگنڈے کو جانے انجانے میں آگے پھیلا رہے ہیں۔

کالم نگار یاسر پیرزادہ کا کہنا ہے کہ آئین میں اظہار کی آزادی اس لیے دی جاتی ہے کہ سچ سامنے آئے۔ اگر اظہار پر پابندی لگانی کی کوشش کی جائے گی تو سچ سامنے آنا مشکل ہو جائے گا۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ملک رہ گیا ہو جہاں اظہار پر پابندی ہو۔ اس کا کبھی کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ آج کل کے دور میں سوشل میڈیا اس قدر تیز اور بے باک ہوگیا ہے کہ اس کی آواز کو دبانا بھی ممکن نہیں رہا۔

یاسر پیرزادہ نے کہا کہ کوئی شخص کسی کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ محب وطن نہیں ہے اور اس کی رائے پاکستان کے خلاف ہے۔ ہم نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا کہ وہ ملک کے خلاف ہو۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر عام بیانیے سے مختلف رائے کا اظہار کرتے ہیں، وہ بھی ملک کی محبت ہی میں ایسا کرتے ہیں۔

پی ایف یو جے کی طرف سے جاری اس بیان کے بعد مختلف صحافیوں کی طرف سے اس پر بھرپور رد عمل سامنے آیا اور صحافیوں نے اسے خوش آئند قرار دیا ہے۔

حالیہ چند مہینوں میں فوج کی طرف سے میڈیا اداروں پر دباؤ کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے اور بعض صحافتی تنظیموں کی طرف سے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس دباؤ کی وجہ سے صحافتی اداروں میں سیلف سنسرشپ میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے بعض نامور کالم نگاروں نے اپنے کالم سوشل میڈیا پر شائع کرتے ہوئے یہ شکایت کی ہے کہ ان کے یہ کالم ان کے اخبارات نے شائع نہیں کیے اور اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی۔