آہ ! بارگ جان – فیصل بلوچ

466

آہ  !  بارگ جان

تحریر: فیصل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

یہ جون 2016 کی بات ہے میں گھر میں بیٹھا اپنے موبائل پہ فیس بک دیکھ رہا تھا، کہ ایک دوست کا میسج آیا کہ بلوچ مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے فلاں سینئر سنگت سے ملنا ہے، وہ ایک موبائل نمبر دے کر بولا کہ اس نمبر پر رابطہ کرو یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ میں کیسا خوش قسمت انسان ہوں، جسے اس سینئر سنگت کا دیدار ہونے جارہا ہے، جس کو دیکھنے کے لیئے دنیا کے کئی لوگوں کی آنکھیں ترس رہی ہیں، اُس ہستی کو دیکھنے کے لیئے میرا دیوانہ پن قیس، رانجھا، فرحاد، رومیو نیز دنیا کے سارے گذرے، موجود، اور آنے والے عاشقوں سے کئی گنا آگے نکل چکا تھا۔ تب میں نے وقت ضائع کیئے بغیر سنگت کا دیا ہوا نمبر ڈائل کیا تو آگے سے ایک سنگت کا پیارا سا خوش کن آواز میرے کانوں سے ٹکرایا۔
“ہیلو…! کون بول رہا ہے جی”
میں نے فوراً سلام کیا وعلیکم السلام کے بعد جان پہچان ہوئی پھر سنگت کے دیئے ہوئے خوشخبری کے بارے میں استفسار کیا تو سنگت نے بولا جی جی بالکل آپ فلاں جگہ پہنچ جائیں، میں آپ کو وہاں سے وصول کرتا ہوں۔.

میں نے اپنا ایک بہترین اور قابلِ بھروسہ دوست ساتھ لیا اور سنگت کے بتائے ہوئے پتے کی جانب روانہ ہوگیا۔ دو دن کے تھکاوٹ سے بھرپور سفر کے بعد ہم اُس علاقے میں پہنچ گئے، جہاں سے فون والا سنگت ہمیں وصول کرنے والا تھا، ایک بار پھر فون کر کے میں نے سنگت کو اطلاع دی کہ آپ کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گئے ہیں، آپ آکر ہمیں وصول کر لیں۔ سنگت بولے صرف پانچ منٹ انتظار کرو، ایک سنگت آپ کو لینے آرہا ہے اور آنے والے سنگت کی پہچان کی نشانیاں دے دی اور پورے پانچ منٹ کے بعد ایک سنگت 125 ہنڈا موٹر سائیکل پہ آکر ہمارے قریب رک گیا۔ جو کہ تقریباً 20،22 سال کا نوجوان لڑکا تھا، چونکہ سنگت نے پہچاننے کی نشانیاں بتائیں تھیں، تو پہلی ہی نظر میں پہچان گئے اور شاید انکو بھی سنگت نے ہمارے کھڑے رہنے والی جگہ کے بارے میں بتایا تھا، تب سیدھا ہمارے قریب آکر رک گیا اور بولا آؤ چلیں تو ہم بھی انکے ساتھ موٹر سائیکل پہ بیٹھ کر روانہ ہوئے، چونکہ رمضان شریف کا مہینہ تھا اوپر سے جون کا مہینہ گرمی اپنے عروج پر تھا، تو جاتے ہوئے وہاں قریب کے دوکان سے کولڈرنک اور افطاری کیلئے دوسرا سامان خرید کر نکل گئے۔

دوپہر 2 بجے کا وقت تھا سورج آگ برسا رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا، جیسے ہمیں کسی گرم تندور میں اتارا گیا ہو۔ تھوڑا آگے جاکر ہمیں ایک بہتا ہوا پانی ملا، جہاں رک کر ہم نے ہاتھ پاؤں دھوئے اپنے ٹوپی، چادر وغیرہ گیلا کر کے اپنے سر پر اوڑھ لیا منہ بھی گیلی چادر سے چھپا دی، کیونکہ سخت گرمی کی وجہ سے چہرے پہ سوئیاں چبھ رہی تھیں۔ اس حالت میں 5 گھنٹے سفر کر کرکے افطاری کے وقت شہر سے کافی دور پہاڑوں کے بیچ ایک جھونپڑی کے پاس آکر رک گئے۔ جو گھاس پھونس سے بنی ہوئی کافی پرانی جھونپڑی تھی، شاید ہمارے آنے کی اطلاع پاکر جھونپڑی سے چار لوگ نکلے، جن کے قمیض شاید گرمی کی وجہ سے اترے ہوئے تھے.

سلام، دعا کے بعد چونکہ شام کا وقت تھا گرمی کی شدت میں کمی آئی تھی، تو جھونپڑی سے باہر جھونپڑی کے سامنے ہی ایک پھٹی پُرانی مگر صاف ستھری چٹائی اور اسکے اوپر کمبل بچھا دیا گیا، افطاری کے بعد بلوچی حال احوال ہوا ساتھ میں ایک خوش ذائقہ چائے پلادی گئی، پھر ہمارا آپس میں تعرف ہوا اس دوران فون والے سنگت نے ایک دوست کا تعرف کچھ اس طرح کروایا کہ یہ ہیں بارگ جان کافی دور سے آئے ہیں، بہت ہی سینئر اور مہربان سنگت ہیں، سنگت کے تعریفی کلمات کے ساتھ میں اس دوست کی طرف متوجہ ہوا، تو کیا پایا ایک لاغر بدن، ہلکی داڑھی، سر پر ہلکے بال، خوبصورت رنگت اور ایک پرسکون و پُر اطمینان چہرہ، لبوں پہ سدا بہار مسکان، آنکھوں میں ایک عظیم مقصد لیئے بارگ جان اپنا تعرف سنگت کے زبانی سن رہے تھے، پہلی نظر میں بارگ جان کا وجود مجھے سحر انگیز لگا لیکن اگلے پل جو ہوا اُس نے تو مجھے دنگ کر دیا۔

کسی سنگت نے بولا بھائی مہمانوں کو چائے تو پلادو، سنگت کے منہ سے چائے کا لفظ سنتے ہی تینوں سنگت ایک ساتھ کھڑے ہوگئے اور چائے دان کی طرف دوڑ لگا دی۔ یہ وہ وقت تھا، جس نے مجھے بارگ جان کا دیوانہ بنا دیا کیونکہ میں نے دیکھا بارگ جان لنگڑا بھی ہے مگر اس لنگڑے پن کے باوجود وہ باقی سنگتوں سے پہلے چائے دان پر قبضہ کر چکے تھے۔ یہ میرے لیئے حیرت کے ساتھ ساتھ فخر کا مقام بھی تھا کہ بارگ جان میں لنگڑے پن کے باوجود اتنی چستی غیرت اور ہمت دیکھ کر میں اپنے ہٹے کٹے بدن کے مالک ہونے کے باوجود خود سست پاکر شرم محسوس کر رہا تھا، لیکن اس لاغر بدن اور لنگڑاتے مردِآہن کو اگلے سات دنوں میں جو ہم نے اس سفر میں ساتھ گذارے جیسا پایا وہ شاید میں سات جنم میں بھی نہ لکھ پاؤں۔

ان سات دنوں کے دوران میرے ذہن میں دنیا کے انقلابی تحریکوں کے بارے میں جتنے سوالات تھے، میں نے وہ تمام پوچھ ڈالے اور شہید بارگ جان میرے سوالات کے جوابات ایسے روانی کے ساتھ دے رہے تھے، جیسے ان سارے انقلابی تحریکوں میں ان تمام انقلابی لیڈروں کے ساتھ شہید بارگ جان بنفسِ نفیس خود ہمسفرءِ کاروان رہے ہوں- ایک سینئر سنگت کے تلاش میں نکلا تھا اور ایک علم کا سمندر پایا، جسے میں کھونا نہیں چاہتا تھا، ان سات دنوں میں زیادہ سے زیادہ معلومات بٹورنا چاہتا تھا، اس علم کے سمندر سے اپنی پیاس بجھانا چاہتا تھا، اس دوران میرا اور شہید نورالحق عرفِ بارگ جان کا جو رشتہ بن گیا تھا، وہ ایک قابلِ صد احترام استاد اور ایک سوالوں کی بوچھاڑ کرنے والے شاگرد کا بن گیا تھا چونکہ رمضان شریف کا بابرکت مہینہ تھا، سحری کے بعد عصر تک ہمارے پاس وقت ہی وقت تھا، تو میں یہ قیمتی وقت یہ انمول ہیرے ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ہروقت میں شہید بارگ جان کے منہ سے جھڑتے ہیرے موتی سمیٹنے میں لگا ہوا تھا۔ اپنی زندگی کے گذرے ہوئے پچیس سالوں پر افسوس کرتے ہوئے انکے فضول گذرنے پر پشیمان تھا، اب انکا ازالہ کرنا چاہتا تھا، شہید بارگ جان کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ میں علم کے معاملے میں کتنا غریب ہوں، مجھے سیاسی و فکری علم کی کتنی ضرورت ہے تبھی تو شہید بارگ جان اپنے مصروفیات ایک ہفتے کیلئے پسِ پشت ڈال کر میرے تربیت میں لگے ہوئے تھے۔

شہید کا اندازِ تربیت، اندازِ بیان اتنا پیارا اتنا شفیق اور اتنا موثر تھا کہ بیان کے حد سے باہر۔ اگر کوئی بات سمجھ نہ آتی تو بھلے ہم سو مرتبہ پوچھ لیتے لیکن بارگ جان کا انداز و لہجہ پہلے والا شفیق و نرم تھا نہ بات میں غصہ نہ ذات میں غصہ نہ کہ کام میں غصہ اگر زندگی میں کسی کو میں نے شہید بارگ جان کی طرح شفیق و مہربان پایا تو صرف ایک ماں کو اپنے بچے کیلئے پایا ورنہ ان جیسا شفیق و مہربان بندہ نہیں پایا تھا۔ یہ سات دن ایسے لگے جیسے میں زندگی کے سات سال ایک یونیورسٹی میں گُذار کر آیا ہوں کیونکہ شہید بارگ جان علم و ذانت کا ایک بہترین یونیورسٹی تھے۔ موضوع کوئی بھی ہو معاشیات، سماجیات، اسلامیات، سائنس، انقلاب، شخصیات وغیرہ وغیرہ مگر شہید بارگ جان ایسے روانی سے بولتے جیسے انہوں نے تمام علوم میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ یہ سات دن کیسے گذر گئے کچھ پتہ ہی نہیں چلا، شہید بارگ جان سے جدا ہونے انہیں الوداع کرنے کو من ہی نہیں کر رہا تھا، بحالت مجبوری ہم جدا ہوگئے لیکن ایک دوسرے کو درد بھری آنکھوں کے ساتھ رخصت کیئے اس کے بعد شہید کے ساتھ وقتاً فوقتاً رابطہ ہوتا رہا لیکن شہید بارگ جان اتنے مصروف تھے کہ ان کو سر کھجانے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔

اس دوران شہید بارگ جان بلوچستان کے شہر شہر، گاؤں گاؤں، گلی گلی، کوچہ کوچہ گھوم کر اپنے لنگڑے پن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے تنظیمی خدمات سر انجام دے رہے تھے، پھر ایک سال بعد ایسا موقع آیا کہ ان پیاسی آنکھوں کو اس مردِ قلندر کا دیدار نصیب ہوا لیکن اس بار لوکیشن چینج تھا زہری کی حسین وادی تھی، سوہندہ کا صاف و شفاف اور میٹھا چشمہ تھا کنارے پہ بیٹھا وہ حسین آنکھوں والا فرشتہ جس نے ہمیں مطلبی زندگی سے نکال کر ایک مقصد کے گانٹھ میں باندھ دیا تھا اور انکے ہمراہ خوبصورت مسکان درمیانہ قد ہمت و جذبے سے بھرپور چٹان شہد دلجان بھی تھے لیکن شہید بارگ جان کو دیکھ کر میں پریشان ہوگیا داڑھی بے ترتیب بڑھی ہوئی ، پاؤں میں ٹوٹے ہوئے جوتے، کپڑوں میں پیوند لگے ہوئے مگر تازہ تازہ چشمے سے دھلے ہوئے، چہرے پہ تھکاوٹ کے احساسات مگر لبوں پہ معمول کی خوبصورت مسکان آنکھوں میں آزادی کا خواب، بدن میں لاغر پن بڑھ گیا تھا، مگر حوصلے چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور راسکوہ و چلتن سے بلند و بالا سلام دعا کے بعد بلوچی حال احوال ہوا اس دوران چائے پانی کا دور چلا پھر شہر سے اپنے ساتھ لائے ہوئے پکنک کا سامان نکال کر ایک اچھا خاصا پکنک بھی منائے۔

اس دوران سنگت اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے، لکڑی چن کے لانا، پانی بھرنا، سالن وغیرہ بنانا مگر میں شہید بارگ جان کے ساتھ ایسے چپک کے بیٹھا تھا، جیسے میں پانچ سال کی کوئی بچہ تھی اور وہ میری بولتی گڑیا اور اس کے چھن جانے کا ڈر ہو ایک بار پھر محفل سجی ایک بار پھر علم کے پیاسے سیراب ہونے لگے، ایک بار پھر ہمارے علم سے قحط زدہ دل و دماغ پر علم کی ایسی بارش برسی کہ دل و دماغ جھوم اٹھے کھانے سے فراغت کے بعد پچھلے ایک سال کے جدائی کے قصے شروع ہوئے، یہ سن کر میں اپنے استاد پر فخر محسوس کرنے لگا اس دوران شہید بارگ جان نے قوم و وطن کی خاطر کتنی تکلیفیں برداشت کی ہیں، کہاں کہاں کی خاک چھانی ہے، سن کر ایک نظر خود کو دیکھتا، ایک نظر شہید کو دیکھتا سوچ رہا تھا، ایک میں نہیں پورے بلوچستان میں شہید کے کتنے دیوانے ہونگے۔

اُس دن شام تک ہم ساتھ رہے پھر جدا ہوگئے، لیکن پتہ نہیں تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی۔ ہم ایک شفیق و مہربان استاد، ایک محنتی سنگت، ایک یونیورسٹی کھودینگے پھر وہ منحوس دن بھی آگیا جس دن میں پارٹی وتاخ میں بیٹھا دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا کہ کچھ سنگت معمول کے گشت سے واپسی پر آکر یہ دل دہلا دینے والی خبر سنادی کہ زہری تراسانی میں بزدل دشمن نے علاقے پر حملہ کر کے بچوں، بزرگوں اور عورتوں کی بے حرمتی کرنا شروع کردیا۔ وہاں علاقے میں موجود وطن کے سچے فرزند شہید بارگ جان و شہید دلجان آسمانی بجلی بن کر اپنے علاقے، اپنے لوگوں، اپنے ماں بہنوں کی عزت و حرمت کے دفاع میں کود پڑے۔ اپنی بہادری، اپنے گوریلا جنگی حکمتِ عملی، اپنے بلند حوصلوں کے بدولت دشمن کو ناکوں چنے چبوا کر اور چھَٹی کا دودھ یاد دلا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا، کئی دشمن فوجیوں کو ہلاک کر کے دشمن فوج میں کھلبلی مچادی، ایک وقت آیا کہ دشمن اپنے جہنمی فوجیوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگنے والے تھے کہ شومئ قسمت شہید بارگ جان و شہید دل جان کے بندوقوں کی گولیاں، تین گھنٹے کی طویل جنگ اپنے سے کئی گنا مضبوط دشمن کو نیست و نابود کر کے ختم ہوگئے تھے۔

اب باری تھا اس ایک گولی کا جو شہید چندرشیکھر آزاد سے شروع ہوکر شہید سلیمان عرفِ شیہک جان، شہید خالق جان عرفِ سردو، شہید امیرالملک، شہید ساتک جان و ہزاروں راہِ حق کے شہیدوں سے ہوتا ہوا شہید بارگ جان و شہید دلجان تک پہنچا تھا۔ اس ایک گولی نے انکے عزت و عظمت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا، اس ایک گولی نے انکو دشمن کے حیوانی، انسانیت سوز اذیت سے بچایا اس ایک گولی نے انکے ساتھیوں اور تحریک کے وہ راز انکے سینے میں تا قیامت محفوظ کر لیئے جس کے لیئے دشمن ایک پاگل کتے کی طرح منہ مارتا پھر رہا ہے، اس ایک گولی نے دونوں شہداء کے شاگردوں، ساتھیوں اور مستقبل کے سرمچاروں کے لیئے ایک جذبہ و حوصلہ چھوڑ گیا۔

یہ 19 فروری کا وہ منحوس دن تھا، جس نے چند سال پہلے تحریک کے بدن کو شہید حق نواز کے شہادت کے صورت میں زخمی کردیا تھا اور آج پھر اسی 19 فروری نے انہی زخموں پر نمک پاشی کر کے بلوچ قوم کو ایک اذیت سے دوچار کیا تھا، وتاخ کے سنگت سب سکتے کے عالم میں تھے، کسی کو ہوش نہیں تھا کہ گشت سے آئے ہوئے سنگت بھوکے پیاسے ہونگے انکو کچھ کھلا پلا دیا جائے۔ ہر آنکھ اشکبار تھا۔ وتاخ میں خاموشی چھائی ہوئی تھی آسمان کی طرف دیکھا تو آسمان کے ماتھے پہ پسینہ اور آنکھوں میں نمی پایا، ماحول سوگوار تھا اور اس غم میں آسمان برسا ایسا برسا کہ ندی نالے آسمان کے آنسوؤں سے بھر گئے، مجھ پر تو قیامت ٹوٹ پڑی سر چکرانے لگا، میں ایک شفیق و مہربان استاد سے محروم ہوگیا تھا۔ ایک ایسے استاد سے جس کے ہر ایک ادا پہ، جس کے ہر ایک خوبی پہ ایک مفصل کتاب لکھی جاسکتی ہے، چند دن تو پاگل پن میں گذرے کہ دنیا جہاں کا کچھ خبر نہیں تھا لیکن انکے کہے ہوئے الفاظ انکی تربیت نے مجھے اس مشکل وقت میں سنبھلنے کا حوصلہ دیا۔

شہید بارگ جان کہتے تھے کہ یہ جنگ ہے کبھی بھی کہیں بھی ہم میں سے کوئی مارا یا پکڑا جاسکتا ہے، پھر بیٹھ کر رونے کے بجائے ہم اس شہید یا مغوی ساتھی کا مشن آگے بڑھائیں، پھر ایک اور بیان نے مجھے یک دم کومے سے نکال کر سنگتوں کے بیچ لا کھڑا کردیا۔ وہ بیان ایک عظیم بھائی کے عظیم بہن گودی آسیہ بلوچ کی تھی جنہوں نے پورے بلوچ قوم کو بھائی کی شہادت پر مبارک باد دی کہ بھائی نے شہادت کا رتبہ پاکر سارے خاندان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ جب اس عظیم بہن کی ہمت و حوصلہ دیکھا تو اپنے آپ کو لعن و طعن کرکے ٹریک پر لایا کہ شہید کی جگہ نہیں لے سکتے تو کم از کم بہن آسیہ بلوچ کو یہ احساس دلا دیں کہ شہید بارگ جان کے شاگرد زندہ ہیں، انکے نقشِ قدم پہ چلنے اور قوم و وطن کے لیئے اپنے تئیں کچھ کرنے کی کوشش کریں۔
بہن ہم شہید بارگ جان کی جگہ تو نہ لے سکیں گے، مگر مشن کو آگے ضرور بڑھائیں گے
شہید بارگ جان، شہید دلجان اور تمام شہدائے وطن کو سرخ سلام

میرا حوصلہ میرا فکر و زانت
یہ جو خون ہے نہ رکے گا اب

یہ ہے جستجو ،یہ ہے کلام عام
میرا ایمان میرے حوصلے رہیں ہمگام