شُورّ کا روشن ستارہ شہید ساتک جان عرف ہِلّہ مڷ

474

شُورّ کا روشن ستارہ شہید ساتک جان عرف ہِلّہ مڷ

تحریر: سمیر بلوچ

خاران، قلات اور نوشکی کے درمیانی پہاڑی علاقے ہمیشہ سے بلوچ سرمچاروں کے مسکن رہے ہیں طویل پہاڑی سلسلہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ریاستی فورسز کو یہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے. ان پہاڑی علاقوں کا ذکر ہو تو شُور کا نام خود بخود زبان زد عام ہوجاتا ہے. کیونکہ بلوچ سرمچاروں کے مسکن کے ساتھ ساتھ اس زمین نے کئی ایسے بلوچ سپوت پیدا کیے ہیں جنھوں نے اپنی تمام زندگی بلوچ قومی تحریک کے لئے وقف کردی تھی اور آخری سانس تک دشمن کو سُرخ آنکھ دکھا کر لڑتے رہے اور اس زمین کی آبیاری (آزادی) کے لئے اپنا خون دے کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے ان ہی سپوتوں کی قربانیوں کی بدولت قابض ریاست کو اس زمین پر ہر وقت گُھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں. ان ہی سپوتوں میں ایک شُورّکا روشن ستارہ شہید ساتک جان بلوچ تھا.

شہید ساتک جان شُورّ کے علاقے “کاچ” میں واجہ فقیر محمد ساسولی کے گھر پیدا ہوا، غلامی اور پسماندگی کی وجہ سے علاقے کے مکین تعلیم جیسی عظیم شے سے محروم ہیں. آبادی کی اکثریت مال مویشی پال کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں. شہید ساتک جان بچپن میں اپنے غلامی اور محکومی کو محسوس کرکے تحریک آزادی کے کاروان میں شامل ہوگیا. اور ہر اوّل دستے کا کردار ادا کرتا رہا.

جب میں نے مسلح جہد کا آغاز کیا اور شورّ میں موجود بی ایل ایف کے کیمپ گیا تو ہر صبح واکی ٹاکی پر شہید ساتک جان کا نام سنتا، بی ایل اے کے دوستوں کا کوئی کام ہو تو آواز شہید ساتک جان کو لگایا جاتا تھا بی آر اے کے دوستوں کا کوئی کام ہو تو آواز شہید ساتک جان کو لگایا جاتا تھا ہمارا بھی کوئی کام ہوتا تو ہم بھی شہید ساتک جان کو آواز لگاتے تھے. بی ایل اے میں ہونے کے باوجود وہ تمام آزادی پسند تنظیموں کے لئے یکساں طور پر کام کرتا تھا.

شہید ساتک جان سے میری پہلی ملاقات 2015ء میں ہوا اور وہ مجھ سے ایسی گرمجوشی سے ملا جیسے برسوں سے مجھے جانتا ہو. پھر اکثر اوقات راستے میں ہماری ملاقات ہوتی تھی. تنظیموں میں شدید اختلافات ہونے کے باوجود کبھی اسکے چہرے کے رونق کو ماند پڑتے نہیں دیکھا. بس یہی کہتا رہتا کہ ایک دن ضرور ہم متحد ہوجائینگے اور پھر ہمیں کوئی نہیں روک سکے گا. 2016ء میں جب اتحاد کی بازگشت ہونے لگی اور ہم علاقائی سطح پر اکھٹے کام کرنے لگے تو شہید ساتک جان سے زیادہ خوش میں نے کبھی بھی کسی کو نہیں دیکھا تھا.

شہید ساتک جان اور میں اتنے قریب تھے کہ شہید ہمیشہ مجھے بلّا ایلُم(بڑا بھائی) کہہ کر پکارا کرتا تھا….. نئے آنے والے ساتھی اور کچھ علاقائی لوگ بھی ہمیں سگّے بھائی سمجھتے تھے.

اس دوران میں نے شہید کو قریب سے دیکھا جو ہر وقت ہر کام میں پیش پیش……..، ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا……..، مہر و محبت کا پیکر……..، خلوص دل کے ساتھ دوستی نبھانا……، صبروتحمل و برداشت کا درس دینے والا…….، اور کیا کیا لکھوں غرض وہ تمام خوبیاں جو ایک انقلابی کے ہوتے ہیں سب کے سب شہید کے اندر موجود تھے……. جب بھی ملتا تھا تو اپنا پن کا احساس دلاتا تھا.

شہید ساتک جان انتھک محنتی ہونے کی وجہ سے سارے دوستوں کے دلوں پر راج کرتا تھا جس کام میں تکلیف اور مشقت اٹھانا پڑتا تھا ایسے کاموں میں سب سے آگے ہوتا تھا تکالیف اور مشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتا تھا اور کبھی شکوہ نہیں کرتا تھا ایسے ہی ایک واقعے کو یہاں قلم بند کر رہا ہوں……..!

ایک دفعہ ہم اکھٹے جنگی گشت کےلئے جارہے تھے صبح آٹھ بجے کے قریب ہم کیمپ سے نکلے. طویل سفر تھا جو ہم پیدل طے کررہے تھے 6 گھنٹہ سفر کرنے کے بعد ایک جگہ تھکاوٹ کو کم کرنے اور چائے پینے کے غرض سے ہم تھوڑے وقفے کےلئے ٹھہر گئے، آدھے گھنٹے کے بعد جب ہم رخت سفر باندھ کر چلنے لگےاور ذمہ دار نے سامان چیک کیا تو ہمیں پتہ چلا کہ ہم کچھ ضروری سامان بُھول گئے ہیں. سارے دوست تھکاوٹ سے چُھور تھے لیکن شہید ساتک تھکاوٹ کو بُھول کر ذمہ دار کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے ایک ساتھی دیا جائے میں سامان لیکر آجاؤں گا تب تک آپ دوست آگے بڑھتے جاؤ ہم رات 11 یا 12 بجے تک آپ کے پاس پہنچ جائیں گے. شہید ساتک جان ایک اور دوست کو لیکر واپس کیمپ کی طرف نکل گیا اور ہم آگے نکل گئے راستہ اتنا کٹھن تھا کہ رات 8 بجے جب ہم اپنے مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو سارے دوست تھکاوٹ سے لیٹ گئے تمام دوستوں کے پاس روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے موجود تھے سب نے دو دو نوالے کھائے اور شہید کے انتظار میں بیٹھ گئے، شہید ساتک جان 11:40 کو ہمارے پاس پہنچ گیا انتہائی تھکاوٹ کے باوجود “اُف” تک نہ کیا اور بناء آرام کے آگے چلنے کےلئے تیار ہوگیا.

شہید ساتک جان ہمیشہ پاکستانی فورسز اور اس کے مقامی زرخریدوں کے خلاف جنگ میں صف اوّل کے دستے میں کردار ادا کرتا رہا. ریاست اور اس کے مقامی ایجنٹوں نے شہید ساتک جان کو بلوچ قومی جہد سے دستبردار کروانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن شہید ساتک جان مخلصی کے ساتھ تحریک سے وابسطہ رہے. ریاست نے اپنے مقامی زرخریدوں کے ذریعے شہید ساتک کے خلاف ہر اوچھے ہتھکنڈے آزمائے حتٰی کہ قبائلی اثر و رسوخ استعمال کرکے شہید کے بچوں کو شہید سے جدا کردیا گیا، اور دوسرے خاندان والوں کو علاقہ بدر کرکے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا گیا لیکن ریاست کے تمام حربے ناکام ہوئے.

18 نومبر 2018ء کی صبح شہید ساتک جان اپنے ٹیم کے ساتھ تنظیمی کام کے سلسلے میں کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ریاستی ڈیتھ اسکواڑ نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے ساتک جان شدید زخمی ہوگئے اور وہ اپنا بندوق اٹھاکر دشمن سے مردانہ وار لڑتے رہے اپنے تمام ساتھیوں کو دشمن کے گھیرے سے بحفاظت نکالا اور خود کو زندہ دشمن کے ہاتھ لگنے کے بجائے موت کو ترجیح دی اور انقلابیوں کے قربانی کے مثال کو تازہ کرتے ہوئے اپنے بندوق سے آخری گولی اپنے سینے پر داغ دی.

شہید ساتک جان کی شہادت نے درد تو ضرور دی لیکن اس کے قربانی کے جذبے نے ہمیں ایک حوصلہ بخشا اور علاقے کے بلوچ عوام کو بیدار کیا.