مسنگ پرسنزمعاملہ دبانے سے حل نہیں ہوگا – ماما قدیر و بی ایچ آر او

204

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں نے سینٹ کی قائمہ کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بلوچ لاپتہ افراد کے حوالے سے بیان کے متعلق کوئٹہ میں مشترکہ پریس کانفرنس منعقد کیا۔

پریس کلب میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے کہ کسی تنازعے کو دبانے یا انکارکرنے سے وہ تنازعہ ختم ہوگیا یا اُس کی شدت میں کمی آگئی ہو، بلکہ اس کے برعکس تنازعہ کی صحت سے انکار پر وہ شدت کے ساتھ سر اٹھاتا ہے۔ اسی طر ح بلوچستان میں انسانی حقوق کا مسئلہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کرنا خود اس مسئلے میں مزید شدت لانے کا مترادف ہے ۔بلوچستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے شعبہ تعلیم سے لیکر انسانی زندگی کوئی بھی شئے محفوظ نہیں ،بجائے انسانی زندگیوں اور ان کے حقوق کو محفوظ کرنے کے ریاستی ادارے ہٹ دھرمی سے کام لیکر مسئلے میں مزید شدت لانے کا باعث بن رہے ہیں ۔ گذشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ’’ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی فہرست حقائق پر مبنی نہیں ‘‘ یہ بیان اسی ہٹ دھرمیوں کا تسلسل ہے۔ مذکورہ کمیشن چھ سالوں میں ابھی تک اپنی ابتدائی رپورٹ تک پیش نہ کرسکی جو لاپتہ افراد کے معاملے میں کمیشن کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے کمیشن کے سربراہ کا بیان درحقیقت ریاستی بیانیہ ہے جس کو کئی سالوں سے تواتر کے ساتھ دہرایا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے جسٹس (ر) جاوید اقبال کا موقف بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس میں مزید شدت لانے کا باعث بنے گا ، جبکہ بلوچستان میں لاپتہ افراد سمیت ا نسانی حقوق کے معاملات اتنے سنگین ہوچکے ہیں کہ عالمی سطح پر اس حوالے سے کام کرنے والے تمام ادارے اس صورتحال کے حوالے سے اپنے تشویش کا اظہار کرچکے ہیں لیکن پاکستان میں لاپتہ افراد کیلئے بنائے گئے کمیشن اس سنگین معاملے کا ابھی تک یا تو صیح ادراک نہیں رکھتا ہے یا جان بوجھ کر اس مسئلے سے انکار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں کمیشن کے سربراہ کا موقف تھا کہ شہریوں کے لاپتہ ہونے کا دعوی کرنے والے کمیشن کو کوئی فہرست پیش نہ کرسکے درحقیقت یہ موقف لاپتہ افراد کے مسئلے کے وجود سے انکاری ہوناہے جبکہ کمیشن نے خود بلوچستان میں لاپتہ افراد کے خاندان سے کبھی بھی ملاقات کرنے اور نہ ان کے موقف سننے کی زہمت کی اور نہ ہی بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے تنظیموں کے موقف کی شنوائی کی یہاں تک کہ متعدد دفعہ لاپتہ افراد کے خاندان اور انسانی حقوق کے تنظیموں نے خود کمیشن تک رسائی کی کوشش کی لیکن ان کی کوششوں کی ہر دفعہ رد کیا گیا ۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی ویب سائٹ میں بھی ہزاروں لاپتہ افراد کے بنیادی تفصیلات بمع نام اور علاقہ کے موجود ہیں۔بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے ہماری تنظیم سرگرم ہے اور اپنے محدودوسائل کے بنیاد پر بلوچستان کے تمام علاقوں میں رسائی کی کوشش کرتے ہیں جبکہ لاپتہ افراد کمیشن کی رسائی صرف کوئٹہ سٹی تک محدود ہے بلوچستان بھر کے معاملات سے کمیشن مکمل لاعلم ہے ۔ جہاں تک بات لاپتہ افراد کے فہرست کی ہے تو ہم واضح کردیں کہ ہما ری تنظیم بلوچستان بھر میں انسانی حقوق کے پامالیوں کے حوالے سے باقاعدگی سے ماہانہ اور سالانہ پورٹ اور لاپتہ افراد کی فہرست شائع کرکے انسانی حقوق کے مختلف اداروں کو بھیجتے ہیں اس کے علاوہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے رپورٹ شائع کرتا ہے لیکن لاپتہ افراد کمیشن نے کبھی بھی اپنی توجہ اس جانب مبذول نہیں کیا ہے۔ صوبائی حکومت نے 2015سے 2016کے درمیان 12000افراد کو مشتبہ ہونے کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا، لیکن آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ یہ لوگ کس حالت میں ہیں۔ بلوچستان کے صورت حال کی حقیقت یہ ہے کہ سیکیورٹی کے ادارے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے ان کا بند کمروں میں ٹرائل کرتے ہیں اور سالوں و مہینوں بعد انہیں شدید تشدد کے بعد یا تو رہا کردیا جاتا ہے یا کہ ان کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوجاتی ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ لاپتہ افراد کے لئے قائم کمیشن کے سربراہ نہ خود لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملے اور نہ ہی ان کے کسی نمائندے نے اس کی ضرورت محسوس کی ۔ لاپتہ افراد کے خاندانوں کی مشکلات کا زکر کیا اور نہ ہی عدالتوں میں زیر سماعت کیسوں میں پیشرفت نہ ہونے پر اپنا موقف دے دیا ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے لاپتہ افراد کے کمیشن کو بلوچستان میں لاپتہ افراد کی فہرست پیش کرنے اور لاپتہ افراد کے خاندان کے ساتھ ملاقات کروانے کے دعوت دہتے ہیں اگر لاپتہ افراد کمیشن بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو بلوچستان ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کے خاندان کیلئے شنوائی میں خانہ پوری کے بجائے سنجیدگی سے تمام لواحقین کی شنوائی کی جائے اور متعلقہ اداروں کے خلاف سینیٹ میں رپورٹ کریں ۔

اس پریس کانفرنس کے موقع پر بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے رہنماء بھی ماما قدیر بلوچ کے ہمراہ تھے۔