بلوچ طلبا کا قلم سے رشتہ؛ تحریر : جیئند بلوچ

381

پرانے زمانے میں کسی نے کہا تھا کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقت کا حامل ہے اپنے زمانے مین شاید اس نے سچ کہ ہوگا یا ہوسکتا ہے ان کا کہا یہ جملہ روشن خیال اور جدت پسند معاشرون میں آج بھی صادق آتی ہو۔

مگر چونکہ ہم ایک مذہبی فاشسٹ ریاست کے زیر عتاب ہیں اس لئے یہ کہا ہمارے پلے نہیں پڑتا۔

کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست نے بتایا تھا کہہ کولواہ ضلع آواران میں ہم کتابیں گھروں میں نہیں رکھ سکتے کیوںکہ پاکستان کی فوج جس کسی گھر میں کوئی کتاب پائے نا صرف وہاں کے مرد مکینوں کو غائب کرتی ہے بلکہ گھر بھی ساتھ میں جلا ڈالتی ہے۔ میرے پوچھنے پہ کہ پھر آپ لوگ کتابیں کہاں رکھتی ہیں اس نے نرالا جواب دیا کہ گائوں سے باہر ہم لوگ جہاں قضائے حاجت کے لئے جاتے ہیں وہاں ریت میں اپنی کتابیں چھپا دی ہیں موقع ملتا ہے تو جا کر کچھ کچھ پڑھتے ہیں۔

یہ اس شخص کا کہنا تھا جن کا اپنا تعلق ہی کولواہ سے تھا کسی کو یقین نہیں آتا تو وہاں جا کر اس کی خود تصدیق کرسکتا ہے البتہ ساتھ میں پاکستان کی فوج کو نا لے جائے اگر کسی بھولے بلوچ کے گھر کسی پرانے کتاب کا کوئی نسخہ برآمد ہو تو اس کی شامت نا آئے۔

محمد علی جناح کے نام پہ پاکستان کے دارالحکومت میں ایک یونیورسٹی قائم ہے وہاں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ علم کے پیاسے چند بلوچ بھی پڑھتے ہیں مگر وہاں اطلاعات ہیں پاکستان اور ان کی فوج ان بلوچوں کے درپے ہے لاٹھیاں اور ڈنڈوں کے ساتھ محض اس لئے ان بلوچوں کے کھال ادھیڑنے پہ تلی ہے کہ وہ پڑھنے کے ساتھ سیاسی سوچ کیوں رکھتے ہیں۔

اصل قصہ جسے میرے ایک دوست نے مجھے سنایا تھا کہ اب سے چند مہینے قبل بلوچ اور سندھی طلباء کے درمیان ایک سازش کے تحت یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مخاصمت کرائی گئی تھی جس کا بعد میں فائدہ اٹھا کر بلوچوں کو جناح یونیورسٹی سے بے دخل کرانے کی کوشش کی گئی بلوچ چونکہ سیاسی سوچ رکھتے ہیں اس لئے وہ احتجاج پر اتر آئے کلاسوں کا تالہ لگادیا یہ دیکھے بناء کہ وہ اس وقت  جناح کے نام پر عطیہ کردہ فاشسٹ ریاست کے دارالحکومت میں ہیں اس لمحے پنجاپی طلبا و طالبات کو بھی موقع ملا کہ وہ اضافی فیسوں کے معاملے میں بلوچ طلبا کے کے ساتھ مل کر احتجاج کے زریعے مطالبات منوائیں راوی کے بقول کچھ پنجاپی طلبا بلوچوں کے پاس آئے انہیں حمایت کا یقین دلایا اور ساتھ یہ شرط بھ رکھ دی کہ وہ اپنے مطالبات کے ساتھ باقی مطالبات بھی رکھ دیں یوں سب مل کر احتجاج کا حصہ بنیں گے ان کے 12اور بلوچوں کے 2 کل ملا کر 14 کے قریب مطالبات تھے جن کے لیئے اکھٹے جدوجہد پر آمادگی ہوئی مگر ساتھ میں بلوچ طلبا نے پنجاپیوں کو قران پر قسم دیا کہ وہ اپنے مطالبات کی منظوری یا سخت صورتحال میں ان کا ساتھ نہیں چھوڑینگے ۔غالبا بلوچ طلبا کو نواب نوروز کا قصہ یاد نہیں رہا تھا پنجاپیوں کے ساتھ قران پر قسم دلوا کر وہ مطمئن ہوگئے۔

جب سختیاں شروع ہوئیں تو بلوچوں کے ساتھ صرف پشتو طلبا دکھائی دیئے قران پہ قسم اٹھائے ایک پنجاپی کھڑ نظر نا آیا۔ لاٹھیاں، گولیاں اور قید و بند کسی کو سہنا پڑا تو وہ بلوچ اور پشتو تھے پنجاپی دور کہیں کھڑا تماشہ دیکھتا رہا۔

اس وقت درجنوں بلوچ اسلام آباد میں محض اس لیئے زیر عتاب ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں پنجاپی اس لیئے ان کے درپے ہے کہ وہ باشعور کیوں ہیں۔ پنجاپیوں کا الزام تھا ہمیشہ یہ تھا کہ بلوچ پڑھتے نہیں اس لیئے خود سر ہیں مگر یہی خود سر بلوچ ان کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہیں وہ ثابت کررہے ہیں کہ ان کا علم کے ساتھ گہرا رشتہ ہے بغاوت ان کی سرشت میں شامل ہے غلامی سے انہیں ازل کی بیر ہے اب پنجاپ کے لیئے کہنے کو یہ الزام بھی باقی نہیں کہ بلوچ پڑھتے نہیں۔

پنجاپ کو بلوچوں سے کوئی ہمدردی ہے نا وہ بلوچوں کو قبول کرنے کو تیار ہیں اس لیئے مختلف بہانوں میں جب کبھی موقع ملتا ہے بلوچوں کے خلاف اپنی نفرت تشدد یا کسی اور شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔ بلوچستان میں چند سالوں کے دوران اسکول کے طلبا سے لے کر کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبا تک ہزاروں طلبا کو پاکستانی فوج نے شہید کردیا ہے۔ سینکڑوں طلبا زیر زندان ہیں گھروں میں کتاب رکھنے پہ پابندی ہے بلوچستان بھر میں درجنوں پبلک لائبریریاں نزر آتش کردی گئی ہیں ہاسٹلیں بند اور اسکولوں میں چوکیاں اور چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔

ان سب کا واضح مطلب یہ ہے کہ پنجاپی بلوچوں کا دشمن ہے اسے تعلیم سے نفرت ہے وہ کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ بلوچ نوجوان علم حاصل کر کے ان کی قبضہ گیریت کے خلاف آواز اٹھائیں اس کے باوجود عقل و خرد کے مارے بلوچ نوجوان کتاب اور قلم سے رشتہ جوڑ کر بیٹھ جائیں حتی کہ اسلام آباد میں جا کر  جناح کے نام پر بنے اس کے سب سے بڑے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں تب تو یقینا صورتحال وہی ہوگا جو ہمارے سامنے ہے۔

ایک بدتر اور نفرت انگیز رویے کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنے والے بلوچ نوجوان کا پیمانہ صبر مگر پھر بھی قابل تعریف ہے جو اس طرح کے آلام کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کر کے بھی قلم ہاتھ میں اٹھائے کھڑا ہے یہی قلم دراصل شعور کا سرچشمہ ہے اور یہ قلم کسی فاشسٹ درندہ صفت ریاست کی موت ہے۔