بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے جاری کردہ بیان میں ہوشاپ میں عام آبادی پر فائر ہونے والے مارٹر گولوں سے کمسن بچوں کی شہادت اور زخمی ہونے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئےکہا کہ سیکیورٹی فورسز بلوچستان میں مسلسل اپنی حدود اور دائرہ کار سے تجاوز کرتی آرہی ہیں جس سے عام عوام جبر و تشدد کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج صبح بلوچستان ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے لکڑیاں چننے والی چھوٹی بچیوں پر مارٹر گولے فائر کیے جس کی زد میں آکر دو بچیاں شہید ہوئی ہیں۔آج رونما والا یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا اور انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ گذشتہ دہائی سے ایسے واقعات میں تسلسل کے ساتھ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اس سے پہلے بھی حد سے تجاوز کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جہاں ایک جانب چادر اور چار دیواری کی تسلسل کے ساتھ پامالی ہوتی رہی ہے وہیں بیچ چوراہوں پربلاامتیاز لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ گزشتہ برس فورسز کی جانب سے تربت کے علاقے آبسر میں طالب علم حیات بلوچ کو اُن کے والدین کے سامنے گولیوں سے چھلنی کیا گیا جبکہ اسی سال ملک ناز اور کلثوم کو تربت ہی کے علاقے میں گھروں میں قتل کیا گیا۔ اِس غیر آئینی اور غیر انسانی عمل میں جہاں ایک جانب فورسز ملوث ہیں تو دوسری جانب فورسز کی جانب سے حمایت یافتہ مسلح جتھے بھی ایسے گھناؤنے عمل کا مرتکب ہورہی ہیں۔بلوچستان میں جاری اِس بربریت اور ظلم و ستم میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بغیر کسی تفریق کے شکار ہو رہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں رونما ہونے والے ایسے واقعات اب معمول بن چکے ہیں جہاں آئے روز لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ آج سے چند ہفتہ قبل تربت ہی کے علاقے آبسر میں ضعیف العمر تاج بی بی کو گھر کا چولہا جلانے کےلیے لکڑیاں چننے کی پاداش میں قتل کیا گیا اور اب جبکہ تاج بی بی کا خون خشک نہیں ہوا تھا کہ ہوشاپ میں یہ دلخراش واقعہ پیش آیا ہے۔ بلوچستان میں جاری ایسے واقعات کو معمول کی شکل اختیار کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ بلوچستان میں بلوچوں کی نسل کشی شدت کے ساتھ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اس واقعے اور فورسز کی حد سے تجاوز کرنے کے خلاف جمہوری طرز عمل اپناتے ہوئے شدید احتجاج کرے گی۔