آھوگ گل کے نام – عدیل حیات بلوچ

974

آھوگ گل کے نام

تحریر: عدیل حیات بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

خودکشی کیا ہوتی ہے؟
کیوں کرتے ہیں لوگ خودکشی؟
کیا وہ کمزور ہوتے ہیں؟
لوگ تو یہی کہتے ہیں کہ کمزور لوگ حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائےحالات سے خوفزدہ ہوتے ہیں تو خودکشی کرتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے؟ لیکن وہ لوگ جو اپنی صحت برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور ہر مہینے مختلف میڈیکل ٹیسٹز کرتے ہیں تاکہ وہ جلدی فنا ہونے سے بچ جائیں کیونکہ ہر انسان کو موت سے ڈر لگتا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو “آھوگ جان” تم کائنات کے دلیر انسانوں میں سے ایک ہو کیونکہ موت سے تمہیں ڈر نہیں لگا اگر کوئی انسان موت سے نہیں ڈرتا اس کا مطلب وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتا لوگ موت سے خوفزدہ ہوتے ہیں لیکن تم نے موت کو خود گلے لگایا۔

لیکن جان ایک بات کہوں لوگ کہتے ہیں کہ تم ڈرپوک ہو حالات کے ڈر سے تم نے خودکشی کی بجائے اس کے کہ تم مقابلہ کرتے۔ وہ لوگ جن کی آنکھوں کے سامنے ان کی ماؤں اور بہنوں سے زیادتیاں ہورہی ہیں، ان کے بھائی مسخ کر کے پھینکے جارہے ہیں اور وہ خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ کچھ کہہ سکے۔
تمہیں پتا ہے کیوں؟
کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ بھی زندانوں میں بند نہ ہوں، کہیں ان کی مسخ شدہ لاش بھی نہ پھینک دی جائیں۔
ہاں جان اذیت کی آخری انتہا موت ہے۔

وہ موت سے ڈرتے ہیں،خوفزدہ ہوتے ہیں،لکھنے سے ڈرتے ہیں،قلم کچرے کے ڈبے میں پھینک دیئے ہیں، ان لوگوں نے موت کی خوف کی وجہ سے۔

ہاں! آھوگ جان وہ لوگ جو تمہیں ڈرپوک کہہ رہے ہیں وہ موت سے ڈرتے ہیں۔
تم نے تو موت کو ہنستے ہوئے گلے لگایا ہوگا نہ؟
یار دیکھو باتوں باتوں میں، میں تو بھول گیا کہ تم لکھتے بھی تھے نہ؟
شاعری کرتے تھے نہ؟
تم نے اپنا قلم آخری دم تک اپنے گلزمین کیلئے استعمال کیا نہ؟
کیا تمہیں ڈر نہیں لگا کہ تم بھی لاپتہ ہوسکتے ہو؟
تم بھی اذیت خانوں میں اپنے ناخن گنوا سکتے ہو؟
میں بھی کتنی عجیب باتیں کر رہا ہوں نہ، تم موت سے نہیں ڈرے تو یہ اذیت گاہ تمہارے لئے کیا ہے۔

اچھا ایک آخری پیغام میرا پہنچا دینا، ان مسخ لاشوں کو کہ یہ کاروان ابھی تک رکا نہیں،جھکا نہیں، یوں ہی چل رہا ہے اور بابا کازی نے کیا کہا تھا کہ:-
“اے جنگ داں کیامت ءٙ امے وڈا روان کنت”
اور یہ کہ کچھ ایسی مائیں ہیں، بہنیں ہیں،بیٹیاں ہیں جو ابھی تک اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے آس لگائے بیٹھی ہیں۔

اگر ان لاپتہ افراد میں سے کسی سے ملاقات ہو تو اسے بتا دینا کہ کبھی اپنے ماں کے خواب میں آکر بتا دو کہ اب وہ لاپتہ نہیں ہے، وہ بھی مسخ ہو کے کسی پہاڑی کے کونے میں پھینکا گیا ہے تاکہ اس کی ماں مزید انتظار نہ کرے:-
“تم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہو”
“تم سا وحشی کہیں جنگل کے درندوں میں نہیں”
عدیل بلوچ کی طرف سے آھوگ گل کو ملے جو ایک دوسرے سے نہ آشنا ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں