بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی چیئرمین نواب بلوچ نے طلباء کے عالمی دن کے مناسبت سے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ طالبعلموں کو کسی بھی سماج میں ایک اہم اساس گردانا جاتا ہے اور اگر ترقی یافتہ اقوام کے جدوجہد پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو طالبعلموں کا مثبت اور تاریخی کردار نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ نوجوان تمام اقوام کا وہ متحرک طبقہ ہے جو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کا حصہ بن کر سماج کو منظم و بہتری کی جانب گامزن لے جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ جن اقوام کے نوجوانوں نے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کیا اور قومی ذمہ داریوں کو فرض سمجھ کر پورا کرنے کی کوشش کی وہی اقوام تاریخ میں اہم مقام پانے میں کامیاب ہوئے ہیں اس کے برعکس قوم میں طلبہ کی اپنے ذمہ داریوں سے بیگانگی اور غافلیت انہیں ہمیشہ تنزلی کی جانب دھکیلتی ہے۔
مرکزی چیئرمین نے اپنے بیان میں اس خاص دن کی تاریخ پر کہا کہ 17 نومبر 1941 کو پہلی مرتبہ لندن میں انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کونسل کے زیر اہتمام اُن چیک طالبعلموں کے یاد میں منایا گیا جو فاشسٹ قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ قومی حقوق کی خاطر جدوجہد کرنے والے طالبعلم رہنماؤں کو قتل کیا گیا جبکہ سینکڑوں کارکنان کو نازی کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ طالبعلموں کو سر راہ پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کے باوجود مقتدر قوتیں انہیں حقوق کی راہ سے دستبردار ہونے میں کامیاب نہ ہو سکے، چیک طالبعلموں کی جدوجہد تمام اقوام کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
چیئرمین نواب بلوچ نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ حالیہ عہد میں بلوچ طالبعلم آئے روز نت نئے مسائل کا شکار ہیں۔ معمول کے مطابق طالبعلموں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے، تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کرنے کے گھناؤنے واقعات پیش آرہے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں بلوچ طالبعلموں کے لیے تعلیمی دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ ایک ایسے موقع پر جہاں طالبعلموں میں خوف و ہراس کا ماحول برپا ہے اور تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہو اور طالبعلم اپنے علمی او تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے سے قاصر ہوں تو جدوجہد اِس عہد کا تقاضا بن جاتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ طالبعلم اپنے ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور سماج میں قومی بنیادوں پر ایک سیاسی ماحول کی تشکیل کے لیے جدوجہد کریں۔