ایچ آر سی پی کا لاپتہ افراد سے اظہارِ یکجہتی ۔ اسد بلوچ

207

ایچ آر سی پی کا لاپتہ افراد سے اظہارِ یکجہتی

رپورٹ: اسد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جبری لاپتہ افراد کے عالمی دن پر تربت میں ایچ آر سی پی اسپیشل ٹاسک فورس مکران کی جانب سے اجلاس منعقد ہوا اور جبری گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ اجلاس میں ایچ آر سی پی کے رہنماؤں نے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تمام افراد کو بازیاب کرانے، جن پر الزامات ہیں ان کے خلاف شفاف عدالتی کاروائی کرنے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ فوری روک دینے کا مطالبہ کیا اور قرار داد بھی منظور کی۔

جبری طور پر لاپتہ کرائے گئے افراد کے عالمی دن پر ایچ آر سی پی کے ریجنل آفس میں منعقدہ اجلاس میں ایچ آر سی پی کے مرد و خواتین کارکنان شریک تھے۔ اجلاس میں ایچ آر سی پی کے سنیئر رہنما و ریجنل کوارڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز کے علاوہ ڈاکٹر سمی بلوچ، محمد کریم گچکی، شگراللہ بلوچ، اسد اللہ، علی بلوچ و دیگر نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو غیرقانونی طور پر لاپتہ کرنا ایک سنگین انسانی مسئلہ ہونے کے ساتھ انسانوں کے حقوق کی بدتریں پامالی ہے، جس کی روک تھام کے لیے دنیا کے مہذب ممالک اور بڑی طاقتوں کو کردار ادا کرنا چاہیے۔

جبری طور پر لوگوں کو اغوا یا لاپتہ کرنا صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ بیشتر ممالک میں اب بھی مخالفین کو اغوا یا جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ جس کا تدارک عالمی اداروں کی زمہ داری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگوں کو محض الزام کی بنیاد پر گمشدہ کرنا ایک ملک کا خطے کا مسئلہ نہیں مگر گذشتہ سالوں سے بلوچستان میں یہ سلسلہ شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے جو تشویش کا باعث ہے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے سرگرم غیر سرکاری ادارہ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کی رپورٹ کے مطابق 2000 سے 2019 تک بلوچستان سے 40 ہزار افراد لاپتہ کیے گئے۔ گو کہ اتنی بڑی تعداد کی تصدیق ممکن نہیں مگر چونکہ یہ تنظیم صرف لاپتہ افراد کے حوالے سے کام کر رہی ہے، اس لیے ان کی رپورٹ پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔

ان افراد میں جو لاپتہ کیے گئے ہیں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ البتہ خواتین اور بچوں کی تعداد مردوں اور نوجوانوں کے مقابلے میں کم ریکارڈ ہوئی ہے جن میں کوہلو، ضلع آواران اور ڈیرہ بگٹی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ گذشتہ کچھ سالوں سے مکران میں بھی جبری گمشدگی کی صورت حال تشویش ناک ہے۔ غیرسرکاری رپورٹوں کے مطابق مکران سے ہزاروں افراد لاپتہ ہیں، البتہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح مکران میں بھی لاپتہ افراد میں سے بہت سے بازیاب ہوئے لیکن ابھی تک ہزاروں افراد کو اس اذیت ناک صورت حال کا سامنا ہے۔

ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان سمیت پاکستان اور پوری دنیا میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ فوری بند کیا جائے جن لوگوں پر ریاست کے خلاف سرگرمیوں یا کسی اور طرح کے الزامات موجود ہیں، ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے اور عدالتوں میں ان کے کیسز پیش کر کے ان پر مقدمات قائم کیے جائیں تاکہ عدالتیں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر سکیں۔

بعد ازاں ایچ آر سی پی کے کارکنان کی جانب سے لاپتہ افراد سے یکجہتی ظاہرکرتے ہوئے مظاہرہ کیاگیا۔ مظاہرین نے انسانی حقوق اور جبری گمشدگی کے خلاف پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر لاپتہ افراد کی فوری بازیابی اور انسانی حقوق کی پامالیاں روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔