آواران: فورسز ہاتھوں 3 خواتین اور 4 بچوں سمیت 11 افراد لاپتہ

200

ضلع آواران کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کے دوران خواتین و بچوں سمیت دیگر افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے پیراندر زیلگ اور ڈھل بیدی سے پاکستانی فورسز نے دوران آپریشن 3 خواتین اور 4 بچوں سمیت 11 افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پے منتقل کردیا۔

تفصیلات کے مطابق آواران کے علاقے پیراندر زیلگ سے پاکستانی فورسز نے سن رسیدہ عبدالحئی اور اس کی بیٹی شہناز اور اس کی ایک سال کے بیٹے فرہاد اور بیٹی صنم ایک اور خاتوں نازل اور اس کے دس سالہ بیٹے اعجاز اور نومولود بچی ماہ دیم کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پہ منتقل کیا ہے۔

دریں اثنا آواران کے علاقے ڈھل بیدی میں پاکستانی فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مارکر 2 افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

مذکورہ افراد کی شناخت ڈاکٹر نذیر ولد عیسیٰ اور شبیر ولد غلام جان کے ناموں سے ہوگئی ہے۔

آواران آپریشن کے حوالے سے بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر واقعے کے رد عمل میں کہا ہے کہ پاکستانی آرمی بلوچستان میں جنگی جرائم اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔

بی ایچ آر او کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کی خاموشی ریاستی جبر کو حوصلہ بخشنے کا باعث بن رہی ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے عدم توجہی کے باعث بلوچستان اجتماعی جبر وسعت پارہی ہے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے جہاں ایک جانب سے لاپتہ افراد کے لواحقین کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہے ہیں تو دوسری طرف صوبائی حکومت میں شامل پارٹیاں بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے پیش رفت کے حوالے مطمئن دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے اپنے ایک بیان میں اس حوالے سے کہا تھا کہ بلوچستان سے 313 مسنگ پرسنگ بازیاب ہوئے ہیں تو اسی دوران 425 افراد غائب ہوگئے ہیں۔ جب تک بلوچستان کے ہر گھر سے خواتین کی چیخ و پکار ختم نہیں ہوگی تب تک میں مسنگ پرسن کے متعلق میں مطمئن نہیں ہوں۔