اربن گوریلہ – کامریڈ سنگت بولانی

292

اربن گوریلہ

کامریڈ سنگت بولانی

دی بلوچستان پوسٹ: اردو کالم

آج جب ایک نئے سنگت کی آمد ہوئی تو دل کو بے انتہا خوشی ہوئی کہ ایک طرف نا اتفاقی و بلوچ قیادت کی آپسی اختلافات، انا و ہٹ دھرمی اور دوسری طرف ریاست کی مارو اور پھینکو والی پالیسی کے تحت تحریک کے حامی بلوچوں کو اغواء کرکے ان کی تشدد ذدہ لاشیں روڈ کنارے یا ویرانے میں پھینک کر خوف و ہراس پھیلانے کی ناکام کوشش جاری ہے، ان سب کے باوجود بلوچ نوجوان، نئے ہمت و حوصلے کے ساتھ جوق در جوق بلوچ تحریک کے مسلح جدوجہد کو سراہ کر اس جہد کا حصہ بن رہے ہیں۔

ان میں سے اکثر کا یہی کہنا ہے کہ اگر سیاسی جدوجہد کرنی ہے، تو بیرون ملک جائیں اگر بیرون ملک جائیں گے تو گراونڈ میں کرنے کے لیئے کچھ نہیں ہوگا، قابض دشمن نے ہماری سرزمیں پر سیاسی پلیٹ فارم ہمارے لیئے بند کر دیئے ہیں، اب اگر کوئی راستہ بچا بھی ہے، تو وہ ہے مسلح جدوجہد۔ آج اگر ہم موجودہ زمینی حقائق و حالات و واقعات کا بغور جائزہ لیں تو موجودہ زمینی حقائق اور حالات و واقعات کے مطابق اب مسلح جدوجہد ہی اس غلامی سے آزادی کا ذریعہ ہوگا۔

سنگت کے پہلے دن کے تربیتی سیشن کے بعد، دوسرے دن پھر سے حسب معمول ٹریننگ کے دوران نئے سنگت سے کچھ غلطیاں سر زد ہوئیں۔
“سنگت ہر غلطی کے لئیے سزا مقرر ہے۔”میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
“بے شک آپ غلطی کے لیئے سزا دے سکتے ہے۔” سنگت نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
“دس فرنٹ رول لگانے ہونگے، لگا سکتے ہو؟” میں نے تیز آواز میں کہا۔
“جی بالکل میں تیار ہوں۔” سنگت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
“میرا سر چکرا رہا ہے۔”سزا مکمل کرنے کے بعد سنگت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

“سنگت یہ سزا عسکری حوالے سے بہت چھوٹی سزا ہے، جہدِ آزادی کا سفر بہت کھٹن ہے، اس سفر میں مشکلات و مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے کیونکہ ہمارا سامنا ایک غلیظ دشمن سے ہے، جو ہمارے ننگ و ناموس کو کچل کر ہمیں ہر طرح سے ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن مجھے قوی امید ہے کہ ایک دن ہم اس قابض دشمن کو اپنے وطن سے نکال باہر کرینگے۔ سنگت سرزمیں سے مہر و محبت کی انتہاء کرنا اور سرزمیں کی دفاع کے دوران بہت سے کھٹن واقعات دیکھنے کو ملیں گے، تو سب مشکلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ اگر کسی چیز کی اہمیت ہے، تو وہ ہے ہمارا مقصد “غلامی سے آزادی” اگر اس مقصد کے آگے یا دشمن کا آلہ کار بننے والا چاہے کوئی بھی ہو، ہمارے رشتہ دار باپ بھائی وہ قابلِ رحم نہیں ہونا چاہیئے۔”

نئے سنگت کو سزا دینے کے بعد مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آگیا، جس واقعے کو اپنے مضمون میں قلمبند کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ماضی میں جب میں ریاست کے ایک عسکری ادارے کا حصہ بنا، اس دوران سات ماہ کے کمانڈو ٹریننگ سیشن میں ہر روز ہمیں فائر کرنے کے لیئے تیس راونڈز دیئے جاتے تھے، جن راونڈز سے مختلف آپسٹیکل میں مختلف ٹارگٹوں کو نشانہ بنایا جاتا۔ ایک دن تین گھنٹے کا ٹریننگ سیشن ختم کرنے کے بعد، حسب معمول ہم اسلحہ جمع کرنے کوت (جہاں اسلحہ جمع کرنا ہوتا ہے) چلے گئے۔ جمع کرنے کے دوران قطار میں دو ٹرینی آپس میں جھگڑنے لگے اور نوبت ایک دوسرے پہ بندوق تاننے پہ آئی، تو دور کھڑے گراونڈ میں ہمارے انسٹرکٹر نے یہ سب ماجرہ دیکھ کر سیٹی بجائی اور اشارہ دیا کہ واپس اسلحے کے ساتھ گراونڈ میں پہنچو۔ تین گھنٹے کی مسلسل ٹریننگ کے بعد ہم تھک چکے تھے۔ حکم کی تعمیل کرنے کے لیئے ہم گراونڈ میں پہنچ گئے۔

“کیا مسئلہ ہوگیا ؟” انسٹرکٹر نے گرجدار آواز میں پوچھا
“گراونڈ کے دس چکر دوڑتے ہوئے لگاو۔”انسٹرکٹر نے تمام ماجرہ سننے کے بعد حکم دیا۔
“سر، جھگڑا ان دونوں کے بیچ ہوا ہے، اس میں ہمارا کیا قصور؟ ہمیں کیوں سزا دیا جا رہا ہیں۔” میں نے کہا۔
“غلطی ایک کرے، سزا سب کو ملے گی، سزا سب کے لیئے یکساں ہیں، جلدی کرو ورنہ سزا میں اضافہ کیا جائیگا۔” انسٹرکٹر نے غصے میں جواب دیا۔

دوڑ کر گراونڈ کے دس چکر مکمل کرنے کے بعد ہم واپس اپنی جگہ کھڑے ہوگئے، اب ہمیں حکم ملا کہ فرنٹ رول لگا کر گراونڈ کے تین چکر مکمل کرو۔ ہم نے فرنٹ رول لگا کر تین چکر مکمل کر لیئے۔ پھر ہمیں حکم ملا کہ اب گراونڈ کا ایک چکر کرالنگ کرکے مکمل کرو۔ گراونڈ پکا ہونے کی وجہ سے کرالنگ کے دوران ہمارے کہنی اور گھٹنے کافی زخمی ہوئے۔ انسٹرکٹر سے زیادہ ہمیں ان دونوں لڑکوں پہ بہت زیادہ غصہ آ رہا تھا اور من ہی من میں انہیں سیکڑوں گالیوں سے نوازا۔ کافی سردی تھی گراونڈ کے ایک کونے میں فائرنگ بٹ تھا، جو کہ مٹی سے بنا ہوا ایک لمبا چوڑا سا ٹھیلا تھا۔ ہمیں حکم ملا کہ دوڈ کر اس کے اوپر چھڑو اور واپس دوڑتے ہوئے نیچے اترو۔

اس دوران ہمارے دو ساتھی بے ہوش ہوگئے، جنہیں طبی امداد دینے کے لیئے میڈیکل روم بھیجا گیا۔ اس دوران کمانڈنٹ گراونڈ پہنچا اور ہمارے انسٹرکٹر سے کہا، “سر میں اپنے کمرے سے پچھلے ڈیڈھ گھنٹے سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ ان بچوں کو سزا دے رہے ہو۔”
“سر، مجھے اپنے کیڈرز پہ اتنا تو بھروسہ ہے کہ اگر میں انہیں دو گھنٹے مزید سزا دوں پھر بھی ان کے حوصلے بلند ہونگے اور یہ میں یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ میرے کیڈرز آدھے گھنٹے بعد واپس اسی گراونڈ میں موجود ملیں گے۔” انسٹرکٹر نے کمانڈنٹ سے مخاطب ہوکر جواب دیا۔

دو گھنٹے کی مسلسل سزا کے بعد ہماری حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ اب تین بجنے میں صرف آدھا گھنٹا ہی بچا تھا۔
“آپ لوگوں کے پاس صرف آدھا گھنٹہ بچا ہے، جاو اپنے یونیفارمز بدلو کھانا کھاو اور ٹھیک تین بجے واپس گراونڈ میں پہنچو۔”انسٹرکٹر نے کہا۔

اب کھانا کھانا اپنی جگہ اپنے کمروں میں پہنچ کر ہمارے ہاتھوں اور پیروں نے ہلنے سے جواب دیا۔ بڑی مشکل سے ہم نے نہا کر یونیفارم تبدیل کیا اور تین بجے گراونڈ میں واپس پہنچے۔ اب دوسرے گروپ کے ٹرینی ہمیں گراونڈ میں دیکھ کر حیران تھے۔
“بچوں آج ٹریننگ سیشن نہیں ہوگا، چلو کینٹین چلیں، آج میں آپ لوگوں کو چائے پلاونگا وہ بھی کیک کے ساتھ۔” انسٹرکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“بچوں میں ظالم نہیں ہوں لیکن مجھے جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں، میں انہیں ٹھیک اسی طرح نبھا رہا ہوں، آج اگر خدا نخواستہ کسی ایک لڑکے سے فائر ہو جاتی تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟ یقیناً میں جوابدہ ہوتا۔ اسی لیئے آج جو سزا آپ لوگوں کو دی گئی وہ ساری زندگی آپ لوگوں کو یاد رہے گی اور آئیندہ آپ لوگ ایسی غلطی کے مرتکب نہیں ہوںگے۔” کینٹین کے باہر لان میں چائے پینے کے دوران انسٹرکٹر نے کہا۔

اس واقعے کے ذکر کا مقصد صرف یہ تھا کہ اپنے ذاتی تجربات سے آنے والوں کو آشنا کرنے کی چھوٹی سی کوشش کر سکوں ان کو دشمن کے بارے میں آگہی دے سکوں، تاکہ وہ جدید اربن گوریلہ طرز اپنا کر کیموفلاج ہوکر، بطور سلیپر سیلز دشمن کے چالوں کا بخوبی اندازہ لگا سکیں، اسکے طریقہ کار و کمزوریوں کی جانچ کرسکیں اور اس کے اداروں، معلومات فراہم کرنے والے مقامی افراد کو پہچان سکیں اور قابض کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے کے نت نئے طریقے تلاش کرکے اسے نقصان سے دو چار کریں۔

اس عظیم جہد کا حصہ بننے والے، نوجوانوں کے لیئے فقط اتنا کہونگا کہ جب آپ کسی مسلح تنظیم کا حصہ بن کر اپنے وطن کے لیئے بے لوث جدوجہد کرنے کا عہد کر لیتے ہو، تب ایک بات ذہن نشیں کر لو کہ آپ بلوچ قوم کا ایک قیمتی سرمایہ ہو برعکس ان لوگوں کے جو زندہ لاش بن کر غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ لوگ جو قومی سوچ سے ہٹ کر اپنے قبائل، خاندان اور صرف اپنے ذات کے لیئے تگ و دو کر رہے ہوتے ہیں۔ تمہاری زندگی قوم کی امانت ہے، اسے سنبھال کے رکھو کیونکہ تمہارے زندہ رہنے سے قابض اور اس کے زر خرید ایجنٹوں کو حد درجہ تکلیف پہنچے گی۔

جب وہ وقت آجائے، تمہیں یقیں ہوجائے کے اب زندہ رہنے کا امید نہیں بچا، تب دیدہ دلیری سے لڑو اور ہنستے ہوئے موت کو مات دو، تب جاکے تاریخ تمہارے جدوجہد کو سنہرے الفاظ سے یاد رکھے گی۔ وطن تمہارے جدوجہد پہ نازاں ہوگی، قوم کی مائیں اپنے بچوں کو تمہارے بہادری کے قصے سنائیں گے، اس طرح تم امر ہو جاوگے۔