بلوچ قومی تحریک و جنگ کا نیا لہر و اسکی حقیقت ۔ چیدگ قمبرانی

105

بلوچ قومی تحریک و جنگ کا نیا لہر و اسکی حقیقت۔

 تحریر: چیدگ قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

 بلوچ قومی تحریک میں موجود تمام تر سیاسی و عسکری لہر ، 21 وی صدی کے شروعاتی وقت میں ہی شدّت اختیار کرچکا تھا۔ اسکی وجہ دشمن کی زیادتی و جبر تھی۔ جبکہ بلوچ تعلیم آفتہ نوجوانوں کو ریاست تیزی سے و بڑی تعداد میں اپنے سلاخوں میں بند کرنے میں مصروف تھا اور بلوچ قوم کی سیاسی مزاحمت پر ریاست پوری طاقت سے حملہ آور تھا۔ جس میں سانحہ کوئٹہ، گوادر و مختلف نوعیت میں بلوچ نوجوانوں کی فیک انکاؤنٹرز میں قتل اور جبری لاپتہ ہونے کی کیسز سامنے آرہے تھے۔ اسی وقت میں ہی بیشتر تعلیم آفتہ بلوچ نوجوان، پہاڑوں کا رُخ کرگئے۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ دشمن بلوچوں پر ایک اور وحشیانہ حملہ چین کے ذریعے کرنا چاہتا تھا اور بلوچوں کی سرزمین پر چین کو دعوت دے رہا تھا۔ بلوچ وطن کی سودا سینکڑوں اربوں سے کررہا تھا۔ اِسی دور میں ہی بلوچ پڑھے لکھے نوجوان دشمن ریاست سمیت چین کو بھی اپنی استحصال میں مزید برداشت نا کرسکے اور اپنی مزاحمت میں تیزی لانے میں کامیاب ہوگئے۔ جس میں 2018 میں بلوچ قومی تحریک کی سب سے بڑی و طاقتور فوج، بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے فدائی حملے میں دشمن پاکستان کا بلوچستان میں استحصالی ساتھی چینی انجینئروں کی بس کو ضلع چاغی کے شہر ڈالبندین کے مقام پر نشانہ بنایا۔ یہ فدائی حملہ بلوچ لبریشن آرمی کے عظیم و بانی رہنما، جرنل اسلم بلوچ کے بیٹے ریحان بلوچ نے خود سر انجام دی تھی۔ جس میں یہ واضح ہوگیا تھا کہ اب بلوچ نوجوانوں میں ایک نیا جرّت اُبھر آیا ہے اور دشمن فوج و اُسکے استحصالی ساتھیوں کا بلوچستان میں کوئی خیر نہیں بلکہ قبر کھودا جائے گا۔ جس کے بعد 2018 میں ہی چین پر بلوچ لبریشن آرمی نے اپنا دوسرا و خطرناک فدائی حملہ کیا، جس میں چائینیز کونسلیٹ کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نشانہ بنایا۔ اب چین و پاکستان خوب سمجھ چُکے تھے کہ بلوچستان میں اُنکے لئے بی ایل اے ایک مظبوط دیوار ثابت ہوا ہے اور اُسکا بانی و رہنما جرنل اسلم بلوچ ایک چیلنج ہے۔ جس میں 2018 میں ہی دشمن نے جرنل اسلم بلوچ کو افغانستان میں خودکش حملے میں شہید کیا۔ بلوچ قومی تحریک کو اُنکے مطابق نقصاندے اثر سے نوازا تھا لیکن وہ اس بات کو بھولے ہوئے تھے اور اپنے وحشیانہ رویّوں سے باز نہیں آرہے تھے بلکہ اپنے عزائم میں سرمست رہے۔ اُنہوں نے چین کو مزید بلوچستان میں سی پیک جیسے بلوچ نسل کش پالسی پر کام کرنے کا زور دیا اور پیسوں کے عوض گوادر بندرگاہ کو سودہ کرکہ بیچنے کی کوشش کی۔ اسی دوران، 2019 میں بی ایل اے نے دشمن پاکستان و چین کے پیسوں سے بنائے گئے لکژری ھوٹل گوادر میں، پی سی ہوٹل پر فدائی حملہ کیا۔ یہ حملہ اس وقت بی ایل اے نے سرانجام دی تھی جب بڑی تعداد میں چائینیز اوفیشلز وہاں موجود تھے، جس میں واضح طور پر بلوچ مزاحمت نے یہ ثابت کردیا کہ یہ جنگ محض ایک رہنما کی کمی سے ختم نہیں ہوگا بلکہ مزید مظبوط و پختہ نطریہ میں تبدیل ہوکر ایک مظبوط و طاقتور لہر میں تبدیل ہوگا۔ جس کی وجہ سے دشمن ریاست و چین کےلئے بلوچستان کی سرزمین مزید نقصان کا باعث بنا۔

بلوچستان کی سرزمین، مزاحمت و تحریک، دن با دن مظبوط ہوتا جارہا تھا۔ جبکہ چالاک دشمن اپنے عزائم میں بھی مصروفِ عمل تھا اور پیسوں کے عوض بہت سے پارلیمانی دلالوں و بازاری دلالوں کو بلوچ قومی تحریک کو ڈیسٹبلائیز کرنے کےلئے استعمال کیا۔ جس میں ، 2020 ، 2021، و 2022 میں بلوچ سرمچاروں کے خلاف دشمن پاکستانی ریاست کریک ڈاؤن آپریشن کا آغاز کرچکا تھا، جس میں بیشتر حملے بزدل دشمن اپنے ڈرون حملوں سے کررہا تھا، کیونکہ بلوچ سرمچاروں کے ساتھ ہمیشہ یہ بزدل فوج آگے وار کرنے میں ناکام ہوچکا تھا۔ انکا واحد سہارا یہی تھا۔ اِنکی یہ بزدلانہ عمل بلوچ سرمچاروں نے سمجھ لیا اور قومی مجرموں کو و ریاستی دلالوں کو بھی اپنے ٹیکنیکل حکمت عملی کے تحت ٹریک کیا۔ ریاست کو اس میں بھی ناکامی کا سامنا ہوا۔

وقت کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی تحریک کی مسلح مزاحمت و سیاسی مزاحمت میں تیزی دیکھنے کو ملا۔ جس میں بڑی تعداد میں ریلیاں جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچستان بھر میں اجتماعات، مارچ، بڑی تعداد میں ہورہے تھے۔ دوسری طرف ریاست کی جانب سے بلوچ پر ظلم و جبر کا شدت تیزی سے پہل رہا تھا اور بلکل ریاست کی یہ رویّہ بلوچ قوم پر ایک وبا بن گیا تھا جس کی وجہ سے بلوچ مزاحمت میں مزید تقویت آیا اور دشمن ریاست پر بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے بڑے آپریشن کئے گئے۔ جس میں آپریشن ھیروف، آپریشن درہ بولان، آپریشن گنجل و آپریشن زرپہازگ سرِفہرست ہیں۔ جو بلوچ قوم کے سب سے بڑی و طاقتور فوج، بلوچ لبریشن آرمی نے سرانجام دئے تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔