دالبندین، “راجی مچی” ضروری کیوں؟
تحریر؛ جعفر قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ
چلو دالبندین چلیں!
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تمام تر کاوشوں سے پرے، راجی مچی منعقد کرنا ان کی سب سے بڑی کامیابی اور کارنامہ ہے۔ پچھلے سال گوادر اور اب دالبندین میں راجی مچی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آج کے بلوچ اجتماعات شاید کبھی بلوچ رہنماؤں کے لئے ایک خواب تھے۔ اب اگر وہ زندہ ہوتے تو اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلتے ضرور دیکھتے۔
بلاشبہ بلوچ قوم کا تمام تر منقسم کرنے والے عناصر کو پیچھے چھوڑ کر متحد و متفق ہونے کا یہ عمل حد درجہ ضروری ہے۔ بلوچستان کو زبان، علاقے، رنگ و لہجوں کے حوالے سے تقسیم کر کے کمزور کیا گیا ہے۔ راجی مچی کا سب سے پہلا ہدف یہی ہونا چاہیے بلکہ ہے بھی کہ بلوچستان اور باہر بسنے والے تمام بلوچ قبائل کو آپس میں شیروشکر کیا جائے۔ انہیں یہ شعور دیا جائے کہ استعماری قوتوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ مظلوم و محکوم قوموں کو تقسیم کر کے ان پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ کو آج لاسی، جدگلی، براہوی، بلوچی و دیگر لسانی لہجوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے۔راجی مچی کا بنیادی مقصد بلوچ قوم کو تمام فرقوں اور گروپوں سے نکال کر صرف اور صرف بلوچ بنانا ہے، اور بلوچستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی اہمیت کو لسانی بنیاد پر اجاگر کرنا ہے۔
یہ بالکل نہیں ہو سکتا کہ ان زبانوں کی بنیاد پر کسی قوم میں تفریق پیدا کی جائے۔ مثال کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پچاس سے زائد ریاستیں ہیں جن میں سے اکثریت کی اپنی علیحدہ زبان اور لہجہ ہیں، لیکن وہ سب متحدہ ریاست ہائے امریکہ ہیں۔ تو پھر کیوں ہم زبان کی بنیاد پر آپس میں دست و گریباں ہیں؟
بلوچ راجی مچی کا دوسرا اور اہم کردار یہ ہے کہ گوادر، سیندک، ریکوڈک، سوئی گیس، حبکو، گُڈوں اور دیگر وسائل کے حوالے سے ریاستی استعماری و استحصالی رویے کو بے نقاب کیا جائے اور بلوچ عوام کے سامنے ان بے بہا خزانوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے جن سے بلوچ قوم کو جبراً بے دخل کیا گیا ہے۔
یاد رہے جب بلوچ قوم کا ہر فرد چاغی کی سرزمین تک پہنچے گا اور اپنے سرزمین سے نکلنے والے سونے، چاندی، لوہے اور قیمتی پتھروں کو دیکھے گا اور اپنی حالتِ زار اور مفلسی کا سامنا کرے گا، تو اسے استعماری قوتوں کی استعماریت کا بخوبی اندازہ ہوگا۔
یقیناً آج اکثریتی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بلوچ دالبندین، چاغی و ریکوڈک کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں اور شاید ہم میں سے اکثریت نے انہیں دیکھا بھی نہیں۔ بس یہی سوچ اور فکر ہے کہ لوگ اپنی آنکھوں سے بلوچستان کی سینے کو چیرتے ہوئے غیر ملکی، چینی، پنجابی، فرانسیسی اور عرب لٹیروں کو دیکھ سکیں، جو بلوچ کے اجازت اور منشا کے بغیر کئی سالوں سے ان وسائل کو لوٹتے جا رہے ہیں۔
اسی بہانے چاغی کے ان بزّہ اور مفلسی کے پیکر لوگوں کو بھی جان سکیں جو سیندک و ریکوڈک جیسے بڑے ذخائر کے باوجود کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی حالت زار اور ان کے علاقے کی حقیقت کو دیکھنا بلوچستان کے دوسرے علاقوں کے لئے بہت ضروری ہے تاکہ ہمیں بھی یہ شعور حاصل ہو سکے کہ ہمارے وسائل کا کتنا بڑا استحصال ہو رہا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوجائے کہ جس بلوچستان سے پنجاب میں اربوں کی مالیت جارہی ہے، وہاں کیسے کیسے ظلم و ستم ڈھائے گئے ہیں، جس کی زندہ مثال چاغی کے جھلس جانے والے پہاڑ ہیں۔
مختصر یہ کہ بلوچ قومی اجتماعات کا مقصد بلوچ قوم کو متحد و متفق کرنا اور انہیں ایسی جگہوں کی اہمیت کا شعور دلانا ہے جہاں سے پنجاب میں گوادر یونیورسٹی، فرانس، سعودی عرب، چین میں ڈیجیٹل انقلاب برپا ہو رہا ہے، اور بلوچستان میں خون کی ندیاں بہ رہی ہیں۔
میرا کُلہؤ (پیغام) اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ آؤ مل کر استحصالی و استعماری قوتوں کے خلاف دالبندین میں بلوچ قومی اجتماع کا حصہ بنیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔