نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے (حصہ پنجم) ۔ رامین بلوچ

51

نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے (حصہ پنجم)
تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

ترقی دراصل ایک سماجی عمل ہوتا ہے۔ ترقی اسے نہیں کہتے کہ ایک غیر ملکی اپنے علاقے یا اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے دوسرے ممالک کی اقوام پر طاقت کا استعمال کرے، چاہے وہ جنگ کے ذریعے ہو، سیاسی دباؤ کی شکل میں ہو، تذویراتی مفادات کے لیے ہو یا کسی قوم کی نسل کشی پر مبنی ہو۔ اس سامراجی عمل کو ترقی کہنا حقیقی اور زمینی ترقی کی توہین ہے، جو بین الاقوامی اور انسانی قوانین، امن اور سلامتی کے خلاف ہے۔

حقیقی ترقی وہی ہے جو دوسری اقوام کی آزادی، انسانی حقوق، ان کے وسائل کی لوٹ مار اور ان کے معاشی و جغرافیائی استحصال پر مبنی نہ ہو۔ بعض اقوام اب بھی سمجھتی ہوں گی کہ چین، امریکہ کے مقابلے میں ان کے لیے کوئی متبادل مسیحا ثابت ہوگا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ بلکہ چین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی سیاسی، اقتصادی اور فوجی طاقت اسے ایک نیا سامراجی کھلاڑی بنا چکی ہے۔

چین کی عالمی پالیسی اور ناقص اقتصادی عمل ایک سامراجی نظریے کی عکاسی کرتا ہے۔ دیگر ممالک کی سیاست، زمین اور تحریکی پوزیشن میں مداخلت کرنا اس کی سامراجی پالیسیوں کی واضح مثال ہے۔ چین کا بلوچستان میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، اور اس کے اقتصادی و فوجی مفادات کے تناظر میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ چین اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بلوچ قوم کی آزادی اور قومی خودمختاری کو نظرانداز کرکے پاکستان کے ساتھ جنگی شراکت داری میں براہِ راست شریک ہے۔ چین کی بلوچستان میں بڑی سرمایہ کاری اور پاکستانی فوجی تعاون کے ذریعے اپنے منصوبوں کا تحفظ بلوچ قومی آزادی اور مفادات کے ساتھ کھلا تضاد ہے۔

1949 سے پہلے چین خود ایک نوآبادی اور مقبوضہ ملک تھا۔ اس وقت چین بیک وقت جاپان، برطانیہ اور یورپ کے ظلم و ستم اور قبضے کا شکار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ نے چین میں افیون کی اتنی زیادہ مقدار میں سپلائی کی کہ چینی قوم منشیات کے نشے میں مبتلا ہوکر اپنی آزادی کی جدوجہد کے قابل نہ رہے۔ چین اس وقت افیون کی بہت بڑی منڈی بن چکا تھا، جبکہ برطانیہ، جو اس وقت ہندوستان پر قابض تھا، نے افیون کی پیداوار کے لیے ہندوستان کی زمین کو چنا۔

برطانیہ کا اقتصادی مفاد یہ تھا کہ چینی عوام افیون کی لت میں مبتلا ہوکر غلامی کے خلاف نہ اٹھ سکیں۔ اس کے علاوہ جاپان نے چین کو کمزور کرنے کے لیے بڑی تعداد میں چینیوں کی نسل کشی کی اور اپنی قبضے کو دوام بخشا۔

کوئی شک نہیں کہ چین اپنے تاریخی ادوار میں عروج و زوال کے کئی مرحلوں سے گزرا۔ بیسویں صدی میں یورپی اقوام کے حملوں اور غیر ملکی مداخلت نے چین کو بے حد کمزور کردیا تھا۔ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے چین کو افیون کی منڈی میں بدل ڈالا۔ بنگال اور بہار میں افیون کی کاشت کرکے اسے چینی ایجنٹوں کے ذریعے چین اسمگل کیا جاتا تھا، تاکہ چینی قوم افیون کی عادی ہوکر سامراجی استحصالی ہتھکنڈوں سے بے خبر رہے۔

افیون کی تجارت نے برطانوی سرمایہ داروں کو امیر بنا دیا، لیکن اس سے چینی عوام کی حالت قابلِ رحم انداز میں برباد ہوئی۔ اس سارے عمل میں فرانس، امریکہ، برطانیہ اور جاپان کے فوجی اور تجارتی ادارے متحد ہوکر چین کے شہروں، بندرگاہوں اور دارالحکومت پر قابض ہوگئے۔ اس کے ردعمل میں چین نے افیون کی تجارت اور غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمتی جنگوں کا آغاز کیا۔

1912 میں “سن یات سین” کی قیادت میں “نیشنلسٹ ریپبلک پارٹی” تشکیل دی گئی، جس نے یورپی طاقتوں اور جاپان کے خلاف سیاسی و مسلح مزاحمت کی بنیاد رکھی۔ اس سلسلے میں چین نے اپنے طاقت بڑھانے کے لیے لینن اور اسٹالن کے ذریعے روس سے سیاسی، فوجی اور معاشی مدد حاصل کی۔

بعدازاں نیشنلسٹ ریپبلک پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی نے اشتراک عمل سے اپنی جدوجہد کو منظم کیا، جس میں ماؤ زے تنگ، چیان کائی شیک اور چو این لائی نے اہم کردار ادا کیا۔ “ڈاکٹر سن یات سین” کی وفات کے بعد انہوں نے “متحدہ نیشنل محاذ” بنا کر سرخ فوج کی بنیاد ڈالی اور گوریلا جنگی حکمت عملی اپنائی۔

1936 اور 1937 میں جاپان نے چین پر بے رحمانہ حملے کیے، جو بدترین اور خونریز جنگی جرائم پر مبنی تھے۔ تاہم ماؤ زے تنگ کی قیادت میں طویل مدافعتی جنگوں کے نتیجے میں جاپان سمیت دیگر نوآبادیاتی قوتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

یکم اکتوبر 1949 کو ماؤ زے تنگ کی قیادت میں چین ایک آزاد ملک کے طور پر سامنے آیا۔ لیکن ماؤ مسلسل جنگوں اور بیماریوں کے باعث کمزور ہوگئے، اور ان کی وفات کے بعد چین کی قیادت “ڈینگ ژیاؤ پنگ” کے ہاتھوں میں آئی۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ نے ماؤ کی سخت گیر پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے اصلاحات اور کھلی معیشت کی پالیسیوں کو اپنایا، جس نے چین کو عالمی اقتصادی کھلاڑی کے طور پر ابھارا، لیکن اس کے نتیجے میں ملک میں معاشی عدم مساوات اور غربت میں اضافہ ہوا۔

چین کی موجودہ سامراجی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ چین اب ایک روایتی سوشلسٹ ملک نہیں رہا۔ اس کی معیشت اور سیاست میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلیوں نے اسے ایک سامراجی طاقت میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا موازنہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی پالیسیوں سے کرنا بے جا نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔