سیمک بلوچ کی سنگیت، اور بلوچ تہذیب ۔سعید یوسف بلوچ

44

سیمک بلوچ کی سنگیت، اور بلوچ تہذیب
تحریر۔سعید یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سیمک بلوچ کی تازہ ترین گانا جو”تاہیر پروڈکشن“ کی جانب سے ریلیز کیا گیاہے، بلوچ فوک موسیقی اور ثقافت کا شاندار اظہار ہے۔سیمک بلوچ کی آواز اور گائیکی میں بلوچ قوم کی روایت، زبان اور ثقافت کو بہتر انداز میں اجاگر کیاگیاہے۔

”تاہیر پروڈکشن“ نے اس گانے کو فلم بند کرتے ہوئے جو منظر کشی کی ہے، وہ ایک سنگ میل ہے۔ یہ ایک معمولی گانا نہیں،بلکہ ایک ثقافتی ورثہ ہے۔اس میں سیمک بلوچ کی صلاحیت، جذبات اور عقیدت جھلکتی ہے۔یہ گانا سیمک بلوچ کی فنی صلاحیتیوں کا بہترین اظہاریہ،اور ایک مثبت پیش رفت ہے۔جسے بلوچ عوام کی جانب سے بے پناہ پزیرائی ملی ہے۔اس گانے میں بلوچ سرزمین، اپنے لوگوں سے مہر و محبت اور اور ان کی رسم وریت کا نمایاں عکس ملتاہے۔جو اس گانے کو اس سے زیادہ پر اثر اوردل کو چھوجانے والے موسیقیوں کی فہرست میں شامل کرتاہے۔اس گانے میں نہ صرف سیمک بلوچ کی آواز کی گہرائی اور جذبات کی شدت ہے۔ بلکہ یہ بلوچ ثقافت کا حسین امتزاج ہے۔اس کے ہردھن، تال اور ہر لفظ میں ایک سماجی عقیدت،درداور امید محسوس کیاجاسکتاہے۔

”تاہیر پروڈکشن“ نے اس گانے کو ریلیز کرکے بلوچ موسیقی کو ایک نئی جہت دی ہے۔اس کی شاعری اور گائیکی میں الفاظ کی سادگی، خوبصورتی اور موسیقی کی ہم آہنگی کو یکجا کیاگیاہے۔اس میں الفاظ اور دھن دونوں کا توازن سننے والوں کے لے ایک شاندار فن پار ہ کی تخلیق ہے۔

مراد پارکوئی کے اس فوک شاعری کو ایک نئی تکنیک و آہنگ آواز، اور سروں کے اتار چڑھاؤ میں مصرعوں کی ادائیگی کا فن کوئی سیمک بلوچ سے سیکھے ۔اس کی آواز کی جادو اور تبسم بھرے ہونٹوں سے اشعار کی ادائیگی، اوردہرائی گئی لفظوں میں چھپے کل بلوچ تہذیب کا جھلک نمایاں ہیں۔گائیکی ایک فن اور ایک آرٹ ہے۔ یہ کوئی آسانی سے نہیں سیکھ سکتا۔ اس کے لے محنت،مشق اور ریاضت کے دریا عبور کرنے پڑتے ہیں۔

گودی سیمک! عمر کے جس بچپن میں فن موسیقی سے شناسائی اور دلچسپی رکھتی ہے، وہ ہمارے لئے باوقار فخر کا مقام ہے،کہ ہمارے سماج میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ اور اس خلا کو کم عمر ی سی سیمک بلوچ نے اپنی گائیگی سے غیر فانی بنا چکی ہے۔ اس نے اپنے صلاحیتیوں کے ذریعہ بلوچ سماج میں جو مقام حاصل کیاہے ،وہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ پوری بلوچ قوم کے لے باعث فخر ہے۔
سیمک بلوچ!کی بحر، تال اور ساز، و سازندوں میں شعری گائیکی، کمال فن کی نمائندگی کرتی ہے۔ اور اس مہارت کے پیچھے ایک تربیت، فن کی گہری سمجھ بوجھ، اور بلند حوصلہ شامل ہے۔ جو اس کے والد”ڈاکٹر امداد بلوچ“ جیسے با صلاحیت،اور راج دوست سے ملی ہوگی۔ شاید ڈاکٹر”کماش“نے محسوس کیا ہوگا،کہ سیمک بلوچ گلوکاری کی فطری صلاحیت رکھتی ہے۔ اور یہی صلاحیت آج سیمک بلوچ کے گائے ہوئے گانوں میں ان کی فنی مہارت نے انہیں ایک منفرد میعاری مقام دیکر اسے جو مقبولیت اور پذیرائی بخشتی ہے۔ شاید کسی اور کو اتنی کم دورانیہ اور کم عمری میں ملی ہو۔

یوٹیوب پر اپلوڈ ہونے والی یہ گانا صرف”آٹھ گھنٹوں“میں لاکھوں ویو حاصل کرچکے تھے۔اور اس کے علاوہ دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں جس تیز رفتاری سے پھیل کر لاکھوں سامعین تک پہنچی ہے۔ یہ ان کی فنی صلاحیتیوں اور محنت کا نتیجہ ہے۔ جو بلوچ موسیقی کے لئے ایک سنگ میل ہے اور اس کی کلاسیکل، اور نوکلاسیکل پرفارمز نے ساز و سنگیت کے سنگم میں، انہیں جو منفرد مقبولیت دی ہے۔ وہ ایک بہت بڑی اور شاندار اعزاز ہے ۔

سیمک کی گائیکی اور بول میں بلوچ دھرتی، سماج ،تہذیب اور ثقافت کی کومل وجودموجزن ہے۔سروں کے نشیب و فراز میں مصرعوں کی ادائیگی، بہت خوبصورت اور جاندار ہے۔ یہ بلوچ لوک سنگیت کا وہ چہرہ ہے،جس میں فوک گلوکاری کی تمام لطافت، شگفتگی، سارنگی اور شیرینی موجود ہے۔ وہ اس خوبصورت سنگیت کے ہر بول، میں اپنے دھرتی کی تہذیب و ثقافت اور اپنے آباؤا جداد کی اسلاف سے ہم کلام اور ہم آہنگ ہے۔

اس کی آواز مین ایسا جادو ئی تاثیر ہے کہ سننے والا گہری الہام میں جاتا ہے۔ او رایک حسین کیفیت میں محصور ہوکر روزمرہ کی چیلنجز کو بھول کر اس آواز اور مناظر کشی کے خوبصورتی میں اتر کر ہر قسم کی فرسٹیشن سے بالاتر ہوتاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیمک بلوچ گلوکاری کے فن پر اس قدر عبور رکھتی ہے، جیسے گائیکی ان کے خون میں شامل ہو چکی ہے۔
مجھے معلوم نہیں کہ سیمک بلوچ کونسی میوزک اکیڈمی میں گلوکار کی رموز کی تربیت لے ہوگی،یا پھر قدرت نے اسے یہ فن فطری طور پر تحفتا دیا ہوگا۔ لیکن میں ذاتی طور پر اس کی آواز سے بہت متاثر ہوں۔ اور یہ اس کے آرٹ کی اثرکا نتیجہ ہے۔میں سوچتاہوں کہ فن موسیقی کا یہ طاقت کتنی عظیم ہے۔

اس نے جس پر عزم اور باحوصلہ انداز میں بلوچ فوک شاعری کو اپنی آواز میں زندہ رکھی ہے۔ ان کی اپنی وطن اور تہذیب سے جو والہانہ لگاؤ اور محبت جھلکتی ہے، وہ ان کی لفظوں کی ادائیگی سے معلوم ہوتاہے۔ ان کے چہرے کے تاثرات بتاتے ہیں کہ وہ اپنی امرت دھار وطن اور مٹی سے کس قدر محبت رکھتاہے۔

سیمک جان فوک گانوں کا کیوں انتخاب کرتاہے؟اور ماضی کے اس ورثہ کواپنی گلوکاری کا میراث اور تعلیمات کا حصہ کیوں بناتی ہے؟ یہ سوال اس کی متقاضی ہے؟ وہ اس کا جواب خود دے سکتی ہے۔ لیکن میری نظر میں فوک گائیکی کا انتخاب موسیقی کی ایک ایسی شکل ہے،جو عوامی سطح پر گائی جاتی ہے۔ اور اس کا تعلق سماج کے عام لوگوں کے روزمرہ کے زندگی، احساسات٫ تعلقات، جذبات،، روایات اور ثقافت سے ہوتاہے۔ شاید سیمک جان اس انداز میں اپنی قومی ثقافتی ورثہ کو زندہ رکھنا چاہتاہے،تاکہ اس نوآبادیاتی ماحول کے اثرات سے اپنی ثقافت کو محفوظ رکھ سکیں۔تاکہ ہماری یہ تہذیب و تمدن آنے والے نسلوں تک پہنچ سکیں۔ اور وہ اس اہمیت کے پیش نظر،بلوچ تہذیب و ثقافت کے شعوری میراث کا بھرم رکھتے ہوئے،اپنی قومی احساسات اور روایات کے تسلسل کو نو کلاسیکل انداز سے ہم آہنگ کریں تاکہ یہ ثقافتی میراث امر رہے۔

جس سماج میں ”ایک ماں اپنے لال کو جھلاتے اور پالتے وقت یہ لوری سناتی ہے، کہ اپنی دھرتی کا محاٖفظ رہنا،چاہے، یہ محاذ آپ سے آپ کی جان کی قیمت مانگے تو پیچھے نہیں ہٹنا“ ایسی سماج جو جنگ زدہ ہو،جہاں انسانیت، امن اور مہرو محبت کو خطرات لاحق ہوتو،ایسے موسیقی ان کے درد اور امید کا عکس بن کر سامنے آتے ہیں۔ جو انسان کو ایک ماضی کی منظر کشی میں لے جاکر سکھاتے ہیں، کہ جبر کے موجودگی میں زندگی کا سفر نغموں اور موسیقی میں جاری رہنا چاہیے۔ایسی سماج میں گیت و سنگیت محض تفریح نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ ایک سماجی مہر، یکجہتی اور ثقافتی عمل بن جاتے ہیں۔جو سماج میں جڑت پیدا کردیتے ہیں اور ایک دوسرے کے درد،اور خوشیوں کو تحریک دیتے ہیں۔

فوک گائیکی اپنی تاریخ اور ثقافت کو زندہ رکھنے کا ایک طاقت ور وسیلہ ہے۔ بلوچستان جو ہزاروں سال کے تیز آنچ میں تپا ہوا وہ سونا اور مردم خیز خطہ ہے۔جو شاعروں، ادیبوں، مورخوں، دانشوروں، فلاسفروں، گلوکاروں اور مجاہدون کا نخلستان ہے۔ اور اس نخلستان میں نو عمر سیمک کی کلاسیکل گائیگی اپنی نعم البدل آپ ہے ۔جن کی جتنی بھی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جائے، وہ احاطہ تحریر سے باہر ہے،ان کی لازوال آوازکی جادو ہمیشہ سلامت و تابندہ اور روشن رہے۔کسی بھی شعر کا صرف کتابوں یا رسالوں میں چھپنا یا پڑھا جانا کافی نہیں، اس کی گایا جانا اس کی نشر اشاعت کا اہم زریعہ ہے۔اوراس کی سب زیادہ تشہیرگائیکی کی فن سے ہوتی ہے۔

سیمک جان کی آواز سے جب یہ لفظ ادا ہوکر گائیکی میں جڑجاتی ہے۔ تو پوراماحول اس کے سحر سے بندھ جاتاہے۔ شعر، راگ اور آواز کا موڈ جب بحر اور تال کے پیمانوں سے ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں، تو ایک غیر فانی گائیکی جنم لیتی ہے، جو سیمک کی صفت ہے. جو بلوچ ثقافتی پرچار سے مضمر ہے۔ جو لفظوں کے تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیتا۔

اس کی آواز سن کر ایسا لگتاہے، جیسے ایک جھیل میں خوبصورت مچھلی تیرتی چلی جاتی ہے۔ یا پہاڑوں سے بہتا ہوا چشمہ اپنی فطری روانی میں بنجر زمینوں کو زرخیز کرتاہے۔ گانے کی ”لے“ سے زیادہ الفاظ کی ادائیگی ہی اسے خوبصورت بنادیتی ہے ۔

سیمک کی گائیکی کی عقیدت ہمیں یہ درس دیتی ہے،کہ سنگیت عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ عبادت جو ایک نفسیاتی پاکیزگی ہوتی ہے. جو انسانی دماغ کے خلیوں کو تناؤ سے آزاد کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جس سے دماغ زیادہ سکون،توانائی، اور توازن حاصل کرتاہے۔

سیمک کے اس گائے ہوئے گانے میں بلاشک بلوچ وطن کے مٹی کے تمام”بلسمی رنگ“ او”ذباد“ اس طرح بکھرے ہیں جیسے سمندر نے اپنے تمام خزانے اگل دیئے ہو۔

یہ بلوچ خطہ کی قدرتی تنوع کو آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ کی مہر و محبت، عزم و جرائت، ثقافت، روحانیت، تاریخ اور فطری جمالیات، یعنی ماحول،مناظر، سادگی، پاکیزگی، عاجزی اور قدرت کی اصلی شکل کو ظاہر کرتی ہے۔جو انسان کو ایک خاص نوعیت کے جمالیاتی خوشی فرائم کرتے ہوئے ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتاہے۔

سیمک بلوچ کے لئے”قلمی اعزازیہ“ کے طور پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہے، کہ وہ اس کم عمری میں اپنی آواز اور فن سے بلوچ قومی ثقافت اور اور موسیقی کو ایک نئی پہچان دی ہے۔ اس کی گلوکاری کا آرٹ یہ ثابت کرچکی ہے کہ بلوچ قوم کسی بھی دوسرے اقوام سے ٹیلنٹ اور صلاحیت میں کم تر نہیں۔ بلکہ وہ اپنے خصوصیات اور قدرتی صلاحیتوں کے ساتھ انسانی سماج میں منفرد شناخت رکھتے ہیں۔

سیمک بلوچ کی فوک گائیکی کا سفر، نو کلاسیکل انداز جو کلاسیکی روایت کی پیروی کرتے ہوئے، اور اس میں جدید تخلیقی تجربات کا طرز امتزاج کی نشانی ہے۔ کہ اگر کسی قوم میں ٹیلنٹ ہو تو وہ اپنی حیثیت اور پزیرائی میں نہ صرف فتح مند ہوتاہے۔بلکہ وہ دنیا کے منظر نامے پر ایک مقام حاصل کرتی ہے۔ سیمک بلوچ بلا مبالغہ یہ ثابت کرچکی ہے کہ محنت، جذبہ اور صلاحیت کے زریعہ کسی بھی رکاوٹ کو عبور کرنا ممکن ہے۔سیمک بلوچ کی فنی صلاحیت اور تخلیقی ہنر نے اسے گلوکاری کے میدان میں انفرادیت دی ہے۔ جو اس کی محنت،ہمت، مستقل مزاجی، خلوص اور سب سے بڑھ کر خود اعتمادی کا مظہر ہے۔
امید ہے! سیمک جان اپنی اس آرٹ کے میراث کو تسلسل کے ساتھ زندہ رکھے گی۔تاکہ آنے والی نسلیں اپنی شاندار تاریخی پس منظرسے آگائی رکھتے ہوئے، اپنے اقدار، تہذیب،روایات اور قومی و سماجی نظریات کو اپنائے۔ اور جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر نہ صرف میوزک اور آرٹ کی جدید تکنیکوں کے ساتھ اپنے تہذیب، رسم رواج ،دود ربیدگ،میار جلی کو زندہ رکھے۔ بلکہ اپنی آزادی وقار اور شناخت کے تحفظ کے لئے اپنی مزاحمتی روایات کو اپنے کردار کا لازمی جزو بناکر ایک بہادر اور آزاد منش قوم کی شکل میں اپنی حیثیت منوالے۔ تب ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنے صلاحیتیوں کو اس سے زیادہ بہتر انداز اور وسائل کے قوت کے ساتھ برقرار رکھ سکیں گے۔

مزاحمتی روایات، اور بہادرانہ نظریات، جرائت مندی، بے خوفی یہ ہماری وراثت رہی ہے۔ آج اگر ہم آزاد ہوتے تو سیمک آپ گولڈ میڈل کا حقدار ہوتے۔لیکن بدقسمتی ہے کہ ہم ابھی تک نوآبادیاتی شکنجوں کے زیر اثر ہے۔

سیمک بیٹی! میری طرف سے میری ان لفظوں کو بطورانعام اور اعزازیہ کے طور پر شرف قبولیت بخشیے۔ یہ آپ کی فنی صلاحیتوں، آرٹ اور بلوچ ثقافتی ورثہ کو اجاگر کرنے کی کوششوں کا اعتراف اور انعام ہے۔

امید کرتاہوں کہ سیمک بیٹی میرے اس قلمی اور ذہنی اعزاز کو دل کی گہرائیوں سے قبول کریگی۔ اور ہم جیسے افتادگان خاک تمثیل ”بزگ‘ اور بلوچ وادی قلم کاروں کے پاس لفظوں کے انعام کے علاوہ اور کیاہے؟انہیں قلمی اخلاقی اور اعزازی تحفہ سمجھ کر قبول کریں۔ حالانکہ ہم جیسے لکھنے والوں کی نہ عبارت برابر ہے، اور نہ جملوں میں ربط ہے، اور نہ گرائمر سے واقفیت رکھتے ہیں۔
بس ہم قلم کی روشنائی اور تحریر کے قالب میں اپنے خیالات، آراء جذبات اور نظریات کو معمولی نوشتہ کار کے حیثیت سے پیوند کرسکتے ہیں۔

بقیہ گلوکاری ہو یا تحریر، ادب، شاعری یا کوئی بھی فکری و تخلیقی جدوجہد درحقیقت محنت، لگن اور مشکلات کا سفر ہے۔ ان تمام شعبوں میں کامیابی کے لیے صرف ٹیلنٹ ہی نہیں بلکہ مسلسل محنت، خود اعتمادی، اور حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی ضروری ہے۔ ہر تخلیق کار اپنی راہ میں آنے والی مشکلات، محدودیتوں اور رکاوٹوں کو عبور کر کے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی فنی یا ادبی کامیابی کے پیچھے ایک طویل اور کٹھن جدوجہد ہوتی ہے
یہ عمل خون جگر صرف کرنے کی مترادف ہے۔ہر فن کار اپنی فن کو تخلیقی اور میعاری بنانے کے لے پل صراطی راستوں سے گزرتاہے۔
۔ فن اور تخلیق کا یہ عمل صرف فرد کی کامیابی نہیں بلکہ پوری قوم و سماج کی فتح ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیمک بلوچ جیسے آرٹسٹ کی شخصیت ایک آئیڈیل اور سمبولک کردار کا حامل ہے۔جو بلوچ سماج کے لئے ایک رول ماڈل ہے۔

اختتامیہ کے طور پر میری مشفقانہ رائے ممکنہ طور پر یہ بنتاہے کہ اپنے تہذیب و روایات اور بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ (بلوچ اخلاقی ضابطہ)کے میراث کو زندہ رکھنے کا عمل بلوچ قومی شناخت، بقاء، قومی خود مختیاری اور فطری ترقی میں اہم کردارادا کرسکتاہے۔
یہ اقدار نہ صرف بلوچ قوم کی تاریخی وراثت کا حصہ ہیں بلکہ ان میں ایسی مضبوط بنیادیں موجود ہیں جو دنیا کے تہزیبوں کا خالق ہے
بلوچ قوم کی شناخت، اس کی زبان، جغرافیہ،ادب،ثقافت، روایات، تہذیب اورتاریخی پس منظر سے وابسطہ ہے۔ یہ تمام اجزاء مل کر بلوچ قوم کی ایک مستحکم،مضبوط اور منفرد شناخت کی تشکیل کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام عناصر کو برقرار رکھنے کے لے ”قومی خود مختیاری“ ایک مضبوط بنیاد فرائم کرسکتی ہے۔جب ایک قوم اپنی خود مختیاری حاصل کرتی ہے ۔تو اسے اپنے وسائل، ثقافت،زبان ادب تاریخ، اورترقی کا آزادانہ مواقع ملتاہے۔ یہ خود مختیاری نہ صرف سیاسی و اقتصادی آزادی فرائم کرتی ہے۔ بلکہ یہ قوم کو اپنی تہذیبی، ثقافتی، علمی اور سائنسی ورثے کو جدید چیلنجز کے ساتھ ایک مستحکم ماحول فرائم کرتی ہے۔ اور اس داخلی معاملات کی آزادی میں وہ اپنے زبان، تعلیم، فنون ادب، اقتصادی، وسماجی مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

جب کسی قوم کو اپنے اختیارات اور قدرتی وسائل پر مکمل قابو حاصل ہوتا ہے، تو وہ علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ اور اس ممکنہ واحد صورت میں ہم ایک خود مختیار قوم کی حیثیت سے، عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہو ئے بین الاقوامی برابری کی طرف گامزن ہوکر عالمی دنیا میں ایک مہذب،متحد،مستحکم، خود اورمختیار مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں ۔اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس میں ہم ایک روشن، مضبوط سیاسی، سماجی ادبی،فنی اور اقتصادی ڈھانچہ قائم کرسکتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ نوآبادیاتی تسلط کے زیر اثر ہم اپنی ترقی کے مراحل طے نہیں کرسکتے۔کیونکہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور استحصال ہمیں ہرحوالہ سے بنجر بناکر رکھ دیتی ہے۔ اور ہم اپنے اندر کی صلاحیتوں کو اس پیمانے پر بروئے کار نہیں لاسکتے ۔یہ وہ بھیانک صورت حال ہوتی ہے کہ ہم عالمی ترقی کے دھارے سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔آزادی کے حصول میں ہی کسی قوم کو اپنی سیاسی معاشی اور ادبی ترقی کے مواقع مل سکتے ہیں۔آزادی ہی وہ واحد اور بنیادی شرط ہے،جس کے زریعہ قومیں اپنی تقدیر کو بہتر کرسکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔