سیاسی تخم سے ای ٹیگ کا ثمر ۔ برکت مری پنجگور

51

سیاسی تخم سے ای ٹیگ کا ثمر
تحریر: برکت مری پنجگور
دی بلوچستان پوسٹ

2021 میں پنجگور سمیت مکران بھر میں ایران بارڈر پر چھوٹے پیمانے پر تیل کے کاروبار کو فینسنگ کے بعد ای ٹیگ ٹوکن میں تبدیل کرکے تمام تر اختیارات سیکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں رکھنے کے خلاف مکران بھر میں تمام سیاسی پارٹیوں اور کاروباری افراد کی جانب سے تحریکوں کا آغاز کیا گیا۔ اس دوران مکران میں ایک نئی تحریک “حق دو گوادر” کے نام سے، بعد میں “حق دو تحریک” کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ شروع میں یہ تحریک مکران بھر میں ایک عوامی قوت بنی، جس کے نعرے اور سلوگن سیکورٹی فورسز کے خلاف تھے۔

بقول حق دو تحریک کے، سیکیورٹی فورسز نے عوامی تذلیل کی انتہا کردی ہے۔ بلوچستان کے مختلف چیک پوسٹوں پر بلوچ عوام کے ساتھ سخت رویے اور ان کی تذلیل کو سلوگن کے طور پر اپنایا گیا۔ “کہاں سے آرہے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟” ایک عام جملہ بن گیا۔ بارڈر اور مچھیروں کے مسائل اور ایران بارڈر پر تیل کے کاروبار کو اپنے نعروں کا حصہ بنا کر حق دو تحریک نے اپنا بیانیہ مضبوط کیا۔

تاریخ میں پہلی بار حق دو تحریک نے گوادر میں مکران بھر کے عوام کو یکجا کیا، جن میں خواتین، مرد، اور بچے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کے جلسے، جلوس، اور دھرنوں کو شروع میں پاکستان کی قومی میڈیا نے مکمل طور پر نظرانداز کیا، لیکن جب یہ انٹرنیشنل میڈیا کی زینت بنے، تو قومی میڈیا کو بھی انہیں کوریج دینی پڑی۔ مکران کی تاریخ میں اس سے قبل کسی بھی سیاسی جماعت کی کال پر اتنی بڑی تعداد میں عوام سڑکوں پر نہیں نکلے تھے۔

اسی دوران پنجگور کے عوام سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بارڈر پر تیل کے کاروبار کی سخت پالیسیوں سے ناخوش تھے۔ ان سخت پالیسیوں کے خلاف پنجگور کے کاروباری، سیاسی، سماجی، قوم پرست، اور مذہبی جماعتیں اکھٹے ہوکر احتجاج، مظاہرے، اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کر چکی تھیں۔

مکران بھر میں ان احتجاجوں نے شدت اختیار کرلی اور بالآخر 2022 میں بارڈر پر تیل کے کاروبار کو ای ٹیگ ٹوکن اسٹیکر سسٹم کے ذریعے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا۔ اس سسٹم کو چلانے کے لیے ڈپٹی کمشنر پنجگور نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور دیگر غیر رجسٹرڈ کمیٹیوں کے ساتھ مل کر 32 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔

کمیٹی نے ایک سخت حلف نامہ رکھا تاکہ کوئی غیر متعلقہ شخص شامل نہ ہو۔ گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے ایک فارم متعارف کرایا گیا، اور گاڑیوں کو مختلف میدانوں میں جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ رجسٹریشن کے بعد ہر گاڑی کو نمبر وائز ٹوکن دیا گیا۔ اس دوران کئی ٹوکن بکس غائب ہوگئے، اور ہزاروں کی تعداد میں فارم جمع ہونے لگے۔

32 رکنی کمیٹی کے ہر رکن کو سینکڑوں ای ٹیگ بغیر کسی گاڑی کے، خاموشی کے عوض جاری کیے گئے۔ اقتدار میں شامل جماعت سے لے کر اپوزیشن پارٹیوں تک سب نے ای ٹیگ سے فائدہ اٹھایا۔ زمیاد 2000 ماڈل گاڑی کے مالکان ای ٹیگ کے ذریعے کروڑوں کے کاروبار میں شامل ہوگئے۔ کئی مذہبی شخصیات بھی تیل کے کاروباری بن گئیں۔

بعد میں ای ٹیگ حاصل کرنے کے لیے فارم کو چھوڑ کر صرف شناختی کارڈ کی کاپیوں پر ای ٹیگ جاری کیے جانے لگے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن اپنے خاندان کے بچوں، خواتین، اور رشتہ داروں کو ای ٹیگ جاری کروا رہے تھے۔ بازاروں میں جعلی شناختی کارڈ بنوا کر بھی ای ٹیگ حاصل کیے گئے۔

پنجگور کی سیاسی جماعتیں سیاست چھوڑ کر ای ٹیگ کے بروکر بن گئیں۔ وہ پنجگور، جو کل سیاست کے حوالے سے شہیدوں کا شہر اور قوم پرستی کا مرکز تھا، آج وہاں کے سیاسی کارکن ای ٹیگ کے سامنے سر جھکا چکے ہیں۔

ای ٹیگ کے کاروبار سے قبل سیاسی جماعتیں پنجگور کے امن و امان، بجلی، صحت، اور تعلیم کے مسائل پر سیمینار، جلسے، جلوس، اور احتجاج کیا کرتی تھیں۔ آج وہ ہوٹلوں اور چوراہوں پر ای ٹیگ فروخت کرنے کے لیے گاہک تلاش کر رہے ہیں۔ 2022 سے 2025 تک ہر مجلس، محفل، دیوان، مسجد، شادی بیاہ، اور دفتر میں صرف ای ٹیگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔

پنجگور کے سیاسی کارکن اپنی 20 سالہ وفاداریوں کو چھوڑ کر ای ٹیگ کے لیے پارٹی بدل رہے ہیں۔ آج پنجگور کے عوام روز لاشیں اٹھا رہے ہیں، بجلی کے ستائے ہوئے ہیں، اور تعلیمی و صحت کے ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔

صوبائی اسمبلی کی نشستیں منڈی بن چکی ہیں، اور مکران ای ٹیگ ٹوکن کی منڈی بن گیا ہے۔ پنجگور میں بنائی گئی آل پارٹیز بھی ٹوکن زدہ ہو کر تقسیم ہو چکی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور انتظامیہ بھتہ وصولی میں مصروف ہیں، اور عوام مسائل کے حل کے لیے مایوس ہو چکے ہیں۔

پنجگور کے عوام کا سیاست سے اعتماد اٹھ چکا ہے، اور نوجوان نسل نے اپنے راستے بدل لیے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔