تمام بلوچ و پشتون طلباء کو فوراْ رہا کرکے، بی ایم سی ہاسٹلوں کو کھولا جائے۔ بلوچستان طلباء تنظیمیں

279

بلوچستان طلباء تنظیموں کی بی ایم سی واقعہ پر مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ آپ سب کو پتہ ہے کہ گزشتہ رات بولان میڈیکل کالج میں ایک انتہاہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں کوئٹہ پولیس نے تمام تر روایات کو پامال کرتے ہوئے بی ایم سی کے ہاسٹل پر دھاوا بول کر پورے ہاسٹل کو قبضہ میں لے کر طالبعلموں پر تشدد کرکے انہیں زبردستی گرفتار کیا۔طلباء پر آنسو گیس کا استعمال کرکے ان پر تشدد کی گئی اور فیمیل طالبعلموں کو زدوکوب کیا گیا۔ یہ سارے اعمال پولیس کی غنڈی کردی سوچ و کالج انتظامیہ کی ناہلی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس فسوسناک واقعہ کے ذمہ دار کوئٹہ پولیس سمیت، کالج انتظامیہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں بولان میڈیکل کالج میں طلبہ کی درمیان ایک معمولی لڑائی ہوئی تھی جس کو ہم اپنے طریقے سے پرامن حل کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ اکثر جب طالبعلموں کے درمیان چھوٹے سے مسائل پر ایسے لڑائی جگڑے جب ہوتے ہیں تو ہم آپس میں مل بیٹھ کر انہیں سلجھاتے ہیں اور بات وہی ختم ہوجاتی ہے۔ یہی روایات اسی جگڑے پر بھی اپنائی جارہی تھی مگر کوئٹہ پولیس نے غنڈہ گردی کرتے ہوئے درمیان میں دخل دیا جس سے بات بگڑ کر اس نہج پر پہنچی ہے۔ پولیس و انتظامیہ نے ایک سوچھی سمجھی سازش کے تحت طالبعلموں کے درمیان چھوٹے سے مسئلہ کو جواز بنا کر بی ایم سی ہاسٹل میں داخل ہوکر بہت سے بلوچ و پشتون طالبعلموں پر تشدد کرکے انہیں زبردستی گرفتار کیا۔ جب اس عمل کے خلاف طلبہ نے مین گیٹ پر دھرنا دیکر طالبعلموں کی رہائی کا مطالبہ کیا، اسی درمیان مزاکرات جاری تھی کہ پولیس نے تمام تر بلوچ و پشتون روایات سمیت ملکی قوانین کو پامال کرتے ہوئے طلبہ پر چھڑائی کرکے ان پر آنسو گیس پھینکے، لاٹھی چارج کیا، فیمیل طالبات پر ناروا زبان استعمال کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد سے بہت سے طلبہ زخمی و بے ہوش ہوئے جبکہ کئی طالبعلموں کو گیٹ پر تشدد کرکے انہیں گھسیٹ کر وینوں میں ڈالا گیا جبکہ ان میں فیمیل طالعلم بھی شامل تھے جنہیں بعد میں رہا کروایا گیا جبکہ باقی ابھی تھانے میں بند ہیں۔ جب ہاسٹل سے کئی بلوچ و پشتون طالبعلموں کو زبردستی گرفتار کرکے بعد میں مین گیٹ پر طلبہ پر تشدد کرکے انہیں گرفتار کرنے کے بعد بھی پولیس کی دل نہیں بھرا، انہوں نے تعصب کرتے ہوئی بروری میں گُلیمار چوک، عیسئ نگری، اے ون سٹی سمیت اردگرد سارے علاقے میں گشت کررتے ہوئے بلوچ ہونے کے پہچان پر کئی نوجوانوں پر تشدد کرکے انہیں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے انتہائی متعصبانہ رویہ اپنا کر گشت کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے انہیں بلوچی چادر سے پہچان کرکے ان پر تشدد کیا اور انہیں گرفتار کیا۔

انہوں نے کہا کہ بولان میڈیکل کالج میں جو واقعہ ہوا جس میں کوئٹہ پولیس نے انتہائی غنڈہ گردی و بدمعاشی کرتے ہوئے بلوچ و پشتون طالبعلموں پر تشدد کرکے انہیں زبردستی گرفتار کیا اور ہاسٹل کو زبردستی اپنے قبضے میں کے کر سیل کردیا۔ یہ ساری چیزیں سوچی سمجھی سازش کے تحت کیے گئے، پولیس سمیت کچھ عناثر یہ چاہتے ہیں کہ بلوچ و پشتون آپس میں لڑیں اور الٹا الزام طالبعلموں پر ڈال دیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک چھوٹی سی مسئلہ پر چند ہی لمحوں میں پولیس کی بھاری نفری ہاسٹل پہنچ کر ساری ہاسٹل پر اپنا قبضہ جماتا ہے۔ یہ ساری چیزیں سوچی سمجھی سازش ہے جو ہمیں آپس میں لڑانے کےلیے کیے گئے ہیں۔ بی ایم سی میں لڑائی ایک معمولی مسئلہ پر کی گئی تھی جس کو ہم اپنے رویات سے حل کرنے کی کوشش میں تھے، اسی کو جواز بناکر ہاسٹل پر دھاوا بول کر طالبعموں کی تشدد و گرفتاریاں تعلیمی اداروں میں فورسز کی اجارہ داری کو واپس لانے کی ایک ناکام سازش ہے جو ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی ادارے تدریس کے درسگاہ ہوتے ہیں جہاں خوشگوار ماحول میں ہی تعلیم سیکھی جاتی ہے، ہر چھوٹے مسئلے پر پولیس و سیکورٹی فورسز کی دخل اندازی نا صرف تعلیمی اداروں کی ماحول کو خراب کرتی ہے بلکہ تعلیمی اداروں کو ملیٹرائزشن کرنے کے زمرے میں آتی ہے۔ ہم یہ ساری چیزیں سمجھتے ہیں کہ کچھ عناصر بلوچ اور پشتون قوم کو لڑانے کی سازشیں کرہے ہیں، تعلیمی اداروں کو ملٹرائزیشن کرنے کی سازش سمیت تعلیمی اداروں میں فعال بلوچ و پشتون طلبہ تنظیموں پر منفی پروپگندہ کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم تمام حکومتی نمائندوں و انتظامیہ کو واضح کرتے ہیں کہ یہ جارحانہ رویہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اس پریس کانفرینس کے توسط سے زمہ داراں کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر یہ غنڈہ گردی ختم نہیں کی گئی تو ہم سخت سے سخت اپنا جمہوری ردعمل اپنا سکتے ہیں۔

مطالبات
رات تک تمام بلوچ و پشتون جتنے بھی گرفتار ساتھیوں کو رہا کیا جائے۔

ان کے خلاف جتنے بھی بوگس ایف آئی آر ہیں انہیں واپس لیا جائے۔

بی ایم سی کے تمام ہاسٹلوں کو کھول کر انہیں فعال کیا جائے۔

اس واقیعہ میں ملوث تمام زمہ داران کے خلاف کاروائی کی جائے جن میں پولیس افسران سمیت کالج انتظامیہ شامل ہے۔

رات تک اگر ان مطالبات پہ عمل درآمد نہیں ہوا تو بلوچستان بھر کے طلباء تنظیمیں سخت احتجاجی ردعمل اپنائیں گے۔