بلوچ نیشنل موومنٹ کی طرف سے جرمنی کے شہر ہینور میں بلوچ شہداء کی یاد میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس موقع پر بلوچ شہداء کی تصاویر کی نمائش کی گئی ۔شرکاء کو پروجیکٹر کے ذریعے بلوچ شہداء کے بارے دستاویزی فلم دکھائی گئی۔تقریب میں جرمنی کے مختلف شہروں سے بلوچ ، کرد اور دیگر اقوام کے لوگوں نے شرکت کی ۔
سیمینار سے بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ ، نامور ادیب ڈاکٹر حنیف شریف ، بی این ایم کے سی سی ممبر حاجی نصیر ، بی این ایم جرمنی چیپٹر کے صدر شرحسن ، نائب صدر صفیہ بلوچ ، بی این ایم جرمنی چیپٹر کے سابق صدر اصغر بلوچ ، امارا ، باربا ، ایفر اوزدوگا اور دیگر نے خطاب کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے چیئرمین نے کہا مھر گڑھ سے لے کر کلات تک بلوچ قوم کی مزاحمت اور قومی آزادی کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 13 نومبر اہمیت سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ ہمارے ملک بلوچستان کے دارلحکومت پر برطانوی حملے کی یاد دلاتا ہے ، جہاں خان محراب خان اور ان کے 400 ساتھیوں نے بلوچ گلزمین کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
انھوں نے کہا خان محراب خان کی شہادت کے بعد بلوچستان بھر میں برطانوی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوا۔ سراوان، جھالاوان، رخشان، سیبی، نصیر آباد، کوہ سلیمان، اور مکوران کے لوگ مزاحمت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اگرچہ کچھ سرداروں نے انگریزوں کے ساتھ تعاون کیا، لیکن بلوچستان کے لوگوں نے استعمار کے سامنے ڈٹ گئے۔
ڈاکٹر نسیم نے کہا جبر کی وراثت پاکستان کو برطانیہ سے ملی ہے جس نے 27 مارچ 1948 کو بلوچستان پر قبضہ کیا۔ اس قبضے کے خلاف آغا عبدالکریم مزاحمت شروع کی اور آج یہ بلوچ قوم کی قربانیوں کی بدولت ایک طاقتور تحریک کی شکل میں موجود ہے۔
بی این ایم کے چیئرمین نے دہرایا بلوچ قوم اور اس تحریک کی منزل آزادی ہے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ بلوچستان کے آزاد ہونے تک مزاحمت کی اس میراث کو آگے بڑھائیں گے۔ قربانی اور عمل کی یہ روایت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمارا وطن ہر قسم کے ظلم و جبر سے آزاد نہیں ہو جاتا۔